یہ نظم کافی دن پہلے ارشد بھائی کی فیس بک وال پر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔کمنٹس میں محض ’’واہ‘‘یا ’’بہت خوب‘‘ لکھنا دل نے گوارا نہیں کیا کیوں کہ یہ نظم مجھے اس تاثراتی اور لمحاتی اظہار سے بہت بڑی معلوم ہوئی۔میں اس پر مفصل بات کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی اس خواہش کو فرصت کے لمحات تک ملتوی کر دیا۔نظم کی پہلی قرأت کے بعد سے لے کرکئی دن تک یہ نظم میرے اندر گونجتی رہی۔جیسے کبھی کبھار کوئی گانا زبان پر چڑھ جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ اسے گنگناتے رہتے ہیں۔بس ایسی ہی کچھ کیفیت رہی میری ۔لیکن پھر ہزار مصروفیت سے وہ کیفیت بھی جاتی رہی اور اس پر کچھ لکھنے کی خواہش سے تا وقت محروم رہا۔
کل میں نے پھر اپنے اندر اس نظم کی گونج اس وقت سنی، جب میں T20 کپ کا فائنل دیکھ رہا تھاپورے میچ کے دوران یہ نظم میرے اندر چلتی رہی اور جب ویسٹ انڈیز کپ جیت گئی تو اس نظم کے استفہامیے میرے اندر چیخنے لگے۔
ہم بھی کیا ہیں؟
نام نسب اور شجرہ کیا ہے؟
کس مٹی نے جنم دیا ہے؟
مجھے ان چیخوں کے شور نے سو نے نہیں دیا اور کاغذ قلم تھما دیا۔سو جو کچھ بھی لکھنے جا رہا ہوں اس نظم کے حصار میں لکھ رہا ہوں۔کسی بھی نظم کو کسی خاص طبقے یا قوم سے جوڑ نا اس کی لا محدودیت کو کسی تنگ دائرے میں قید کرنے کے مترادف ہے۔اس کی لاکھ جہتوں میں سے کسی ایک کو چننا دراصل اس کی معنوی کثرت کو وحدت میں بدلنا ہے جو نظم کے ساتھ مبنی بر انصاف رویہ نہیں۔لیکن کبھی کبھی کوئی نظم ایسی بھی ہوتی جسے یہی تناظر اور اسی نہج کی قرأت بڑا تخلیقی عمل ثابت کر دیتی ہے۔اس کے معنیِ واحداور مرکزے کا تعین ہی اس کی بڑائی پر دلالت کرتے ہیں۔یہ نظم بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے۔جس کا بنیادی کلامیہ سیاہ فام قوم ہے۔ویسٹ انڈینز نے مجھے بلا وجہ اس نظم کی طرف سوچنے پر مجبور نہیں کیا ۔میرے خیال میں یہ نظم سراسر ان ہی کے لیے لکھی گئی ہے۔جب میں نے اس نظم کواہلِ حبش سے جوڑ کر دیکھا تو مجھے یہ نظم اتنی بڑی معلوم ہوئی کہ اس کے قد کا تعین محال ہو گیا۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا تناظر اسے ایسی بلندی نہیں دے سکتا۔
حبشی اقوام (Blacks)،ان کی غربت و افلاس،بھوک،پیاس،بے لباسی،بے سروسامانی ،در بدری،جفا کشی، طاقت،غیرت، محنت اور نا مختتم ذلت ۔ان کی ذات نیچ ،ان کا رنگ بد رنگ،ان کی شکل قابل نفرت ،ان کا وجود نا قابل برداشت، ان کی غربت و افلاس بھوک پیاس اور ان کی غلامی و رسوائی ان کی ازلی تقدیر،جو شاید کبھی نہیں بدل سکتی ۔ان کی کہانیاں کس نے نہیں سنی ؟لیکن شاید ہم ان کی کہانیاں سننا بھی پسند نہیں کرتے کیوں کہ ہماری حس جمالیات پر یہ بھی ناگوار گزرتی ہیں۔
مختلف اقوام و طبقات اور ادیب ان چیخوں کو پڑھنے کے بعد جو سیاہ فاموں کے ادب اور کتابوں میں دفن ہیں ،ان کے حقوق کی آوازیں بلند کرتے رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کو درپیش مسائل، ان کی حالت زار کے اصل اسباب،ان کی شب و روز کی کشمکش ،ان کے کرب اور ان کے اندر گونجنے والے سوالات اور ان کے جوابات تک رسائی غیر سیاہ فام کے بس کا روگ نہیں۔ایسے میں جس لہجے میں ارشد بھائی نے اس کرب کو رقم کیا ہے وہ قا بل تحسین ہے۔
بیس سطروں کی اس مختصر نظم میں نہ صرف خیال مکمل طور پر ترسیل ہوا ہے بل کہ ہر مصرعہ الگ الگ اپنی ساخت اور بنت کے اعتبار سے مکمل اور پر تاثیر ہے (میں پہلے ہی انہیں مصرعوں کے بہ جائے چیخوں سے تعبیر کر چکا ہوں)۔روانی،شعریت اور موسیقیت سے بھر پورمصرعوں کی ترتیب و تنظیم بھی انتہائی خوب صورت ہے۔پوری نظم استفہامیہ لب و لہجے میں لکھی گئی ہے ۔جس میں پہلا استفہامیہ سب سے زیادہ جان دار بھی ہے اور اہم بھی ۔
ہم بھی کیا ہیں؟
سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ’’ہم کیا ہیں‘‘۔مگر شاعر نے ’’بھی‘‘ کے کمال استعمال سے نہ صرف طنز کی ترشی بڑھائی بل کہ اپنے وجود کی لایعنیت ،اپنے چھوٹے ،کم تر اور نہ ہونے کے برابر ہونے کا بھی تاثر پیدا کر دیا۔اس کے بعد آنے والے تمام استفہامیے اسی کے ذیلی استفہامیے بنتے ہیں جو غم ،غصے ،لاچاری،بے بسی،گلے شکوے،جیسی کئی ملی جلی کیفیات کا مظہر ہیں۔
نام نسب اور شجرہ کیا ہے؟
کس مٹی نے جنم دیا ہے؟
یہ نہیں جانتے کہ ان سے کیا کو تاہی ہوئی ہے؟کون سا گناہ سر زد ہوا ہے؟کس کی دل آزاری ہوئی ہے ؟کس کے ساتھ زیادتی کی ہے؟کس کی بد دعا لگی ہے؟یہ سزا تو ہے جو یہ بھگت رہے ہیں پر کیوں بھگت رہے ہیں؟اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں۔
کس کی خاطر اوکھت بھوگی
کس خواہش نے
گھومتا چرخہ روک دیا ہے
یہ، یہ بھی نہیں جانتے کہ کون ہے جس نے ان کو یہ سزا سنائی ہے، یہ زوال در زوال کو ن ان کی قسمت میں لکھے جا رہا ہے۔
کون طنابیں کھینچ کے
رتھ کو ڈھلوانوں میں لے آیا ہے
جب یہ ان سوالات کا جواب روز تلاشتے تلاشتے تھک جاتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ، ان کے موٹے بھدے ہونٹ ہیں جن سے مانگی گئی دعاؤں کے حروف بھد بھد کر کے گر جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں ،خدا تک پہنچتے ہی نہیں کیوں کہ اگر اس تک پہنچتے تووہ سن لیتا۔
کال کلوٹے
چپٹی ناکوں والے ہم کیا جانیں
موٹے بھدے ان ہونٹوں سے
بھد بھد کرتے
حرف دعا کے گر جاتے ہیں
مر جاتے ہیں
ان سوالوں سے الجھتے الجھتے اور ان کے کڑوے جواب پاتے پاتے یہ بھی ہر شام اپنی سستی موت مر جاتے ہیں اور پھر ہر صبح صدیوں سے ایک ہی گھٹڑی سر پر رکھے، اپنے بے معنی وجود کا با ر لیے اٹھ بھی جاتے ہیں۔ یہ لا متناہی سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے اس کو موت نہیں آتی۔
سوکھی روٹی گڑ کی بھیلی
جیب میں رکھی
اور صدیوں کی گٹھڑی سر پر
روز سویرے انگڑائی لے
نام خدا کا جی اٹھتے ہیں
شام تلک مر جاتے ہیں
نظم کا عنوان بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ نظم سیاہ فاموں کے لیے لکھی گئی ہے ۔’’ماتھے سے چپکی سفید چمگادڑ‘‘ اس عنوان نے نظم کے معنوی مرکزے کو روشن کر دیا ہے۔سفید چمگادڑ ،سفید رنگ سے ان کی نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔چمگادڑچاہے سفید رنگ کا ہی کیوں نہ ہو قابل نفرت ہی رہتا ہے۔دوسری طرف سفید رنگ کی ہر شے ان کے لیے چمگادڑ جیسی قابل نفرت ہی ہے چاہے اب ہم ’سفید چمگادڑ ‘ کو کسی بھی شے کی علامت مان لیں ،گورے انگریز کی،دن کی،سفید کاغذ کی،یا نور خدا کی !!