سرسبز وشاداب، چشموں کی جھنکار اور بارش کی رم جھم برستے بادلوں کے شین مرغزارٹھنڈے میٹھے علاقے، شنہ پونگہ، میں دنیائے فکرو فلسفہ اور انسانیت کے آسمان پرایک ایسا ستارہ طلوع ہواکہ جس کی روشنی سے اس دور کے خوش قسمت تو ضیا حاصل کرتے ہی رہے لیکن بعد کے آنے والے روشن خیال نوجوان بھی اس روشنی میں اپنی راہ کا تعّین کر کے اپنی منزل کی جانب رواں دواں قافلے کا حصہ بنتے رہیں گے۔ ظلم و ناانصافی کے خلاف قافلے کی بجنے والی اس گھنٹی کی آواز سدا گونجتی رہے گی اور وہ خواب کہ جن کو زندہ دفن کیا گیا تھا، انھیں کھود کر پورا کیا جائے گا۔
پشتو صرف ایک زبان نہیں بلکہ یہ ایک فلسفہ ہے۔ پشتو نام ہے ایک غیرت کا اور اس لحاظ سے پشتو کسی بلوچ میں بھی ہو سکتی ہے، پٹھان میں بھی اور کسی پنجابی میں بھی۔سو پشتو سادہ مزاج، ظلم و جبر کے مخالف، نا انصافی پر چیخنے والے اس سادہ لوح پشتون کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ تاریک ترین قبائلی دور اور برطانوی استعمار کی مسلط کردہ جہالت، پسماندگی اور غربت پورے علاقے پر چھائی ہوئی تھی اور اپنے جہاندیدہ اور ہندوستان و بنگال کے تاجر والد عیسیٰ خان کی سرکردگی میں اسے کڑم نامی گاؤں بھیجا گیا جہاں ابتدائی تعلیم کے بعد ژوب اور پھر سکالرشپ پرپشین چلے گئے۔ اس دوران انھیں نور محمد کی دوستی نصیب ہوئی جو بعد میں صوفی نور محمد کے نام سے جانے گئے۔وہ رجعت پسندی، ملا کی سیاست، نواب، سردار اور خان سے نفرت کرنے والا، فیوڈل ازم کا مخالف اور اس دور میں ژوب شہر آکر اخبار ات جمع کرنے والا انسان تھا۔ پشین میں کمال خان شیرانی، خدائیداد اور ماما جمالدینی کی دوستی میں اقبال کی شاعری ایک پُل ثابت ہوئی۔
اور پھر 1941 میں اسلامیہ کالج پشاور میں جسمانی طور پر معذورمفکر و فلسفی استاد جو جسمانی مریضوں سے زیادہ ذہنی مریضوں کی تربیت قائل تھا،کا پنے ان شاگردوں کے ذہن کی سلیٹ سے روایتی سوچ کو کھرچ ڈالا ۔ اس نے گوئٹے و اینگلز، ہیگل و گورکی اور ارسطو و افلاطون سب ہی کو پڑھوایا اور سب ہی سے انھیں متعارف کروایا۔زندگی سے بھرپور پیار کرنے والے اس استاد، قوم دوست و انسانیت دوست مفکر، بھوک، جہالت اور غلامی کے خلاف اٹھانے والا عَلم اپنے ان ہونہار شاگردوں کمال خان شیرانی اور ماما جمالدینی کے حوالے کردیا اور وہاں سے ، منافع، جیسی اصطلاح سے واقفیت پانے والے سائیں شیرانی نے اس منافع پر کھڑے سماج کے خلاف آواز بلند کی اور پھر ساری عمر اسی کے لیے لڑتا رہا۔ اسی دور میں وہ سرکاری نوکریاں چھوڑ کر عوام الناس میں شامل ہو گیا۔
ٍ نوخیز ذہنوں کی تربیت کا عَلَم جو انھیں اپنے استاد سے ملا، اسی کی سربلندی کے لیے لٹ خانہ، کی صورت میں پہلا مورچہ1950 ء میں سنبھالا جہاں نوخیز ذہنوں کے بیج بوئے جانے لگے۔ روشن فکر ادب پڑھایا جاتا اور انسانی نجات کی راہیں ڈھونڈی جاتیں۔ جہاں انفرادیت کے ڈھول کو ختم کر کے اجتماعیت کی مدھر بانسری بجائی جانے لگی۔ کھڑے پانی کی سوچ جو ایک تعفّن کا شکار تھی ،وہاں نئی بارش کے قطرے بن کر ان مایوسیوں سے ٹکر لینے کی طاقت بخشی، بالکل اس طرح کہ جیسے بارش کھڑے باسی پانی کے تالاب کو سوچ کی تازگی کا ریلا عطا کرتی ہے۔
شاہ محمد مری نے جس خوب صورتی سے سائیں کمال کی شخصیت کا ایک مکمل خاکہ کھینچااور ان کے ساتھ اپنے تعلق کو اس کتاب میں بیان کیا، اس کو پڑھ کے یوں لگا کہ جیسے میں بھی اس دور میں تھی اور میں ان سے مل چکی ہوں۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ قبائلی دشمنیوں سے نفرت کرنے والے سائیں شیرانی، شنہ پونگہ، چھوڑ کر سلیازئی میں سکونت پذیر ہوئے۔ اور پھر منتشر ذہنوں اور منتشر دلوں کے سو نہیں بلکہ ہزاروں مقامات سے لوگ سلیازئی کے اس انگوری بیٹھک میں جمع ہوتے اور فکرو فلسفے، دوستی و محبت اور انسان اور انسانیت کے جام اس شیریں سخن سے لے کر نوش کرکے مدہوش ہوتے اور اپنی شخصیت کی تکمیل کرتے۔
سورج کی طرح جلتے، اپنی ذات کی نفی کرتے یہ عاجز وانکسار لٹ پشتون ، کتابوں کا عاشق، کتابوں کا رسیا جس طرح سرمایہ کو ایک فرد کے پاس رکھنے کا قائل نہیں تھا، پیسے کی طرح وہ کتاب کو بھی generate کرتا تھا وہ کتاب کو ریک میں نہیں سجاتے تھے بلکہ اسے پڑھتے اور آگے بڑھا دیتے۔ مری صاحب لکھتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی ان کی شخصیت کا حصہ نہیں تھی۔ خود اپنی مرضی سے غربت کواختیار کرنے والے سائیں شیر انی چاہے پیسہ ہو، چاہے کتاب، چاہے علم ہو چاہے سوچ اور چاہے محبت وہ تقسیم کرتے تھے اور تقسیم کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ زندگی کے ہر انگ میں وہ سوشلزم کے قائل تھے۔
اپنی زبان و ادب سے محبت کی بنا پرانھوں نے کئی کتابوں کا پشتو میں ترجمہ کیا۔ وہ پٹھانوں کو اپنا رخ سیدھا کرنے کا سبق دیتے تھے اور کہتے تھے کہ جھاڑ جھنکار سے لدے ہوئے گدھے نہیں بلکہ ایک سیدھی قطار میں چلتے اونٹ بنو۔ اپنی سوچ کو سیدھا کرو کہ تمھاری چال سیدھی ہو جائے جب کہ انھیں استاد کہلوانے کا کبھی بھی شوق نہیں ہوا۔وہ خود مصنف نہیں تھے لیکن ایک writers producing personality ضرور تھے کہ ایک ایسا شعور دیا جس نے بے شمار مصنف تخلیق کیے۔
ان کی ایک عجیب سی شخصیت تھی۔ بابا کہتے ہیں کہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ سوچ کے یہ انسان ایک عام بندے کی طرح ہنستے بھی تھے اور روتے بھی تھے اور محبت وعشق جیسے جذبے کے بھی خلاف نہیں تھے کیوں کہ اس خاص انسان کو کبھی بھی خاص بننے کا شوق نہیں رہا اور عام انسان روتا ، ہنستا بھی ہے اور محبت بھی کرتا ہے۔ ظلم کو محسوس کرتا ہے اور ظلم پر چیختا بھی ہے۔
آخری عمر میں سماعت کی کمزوری ان کی کمزوری نہیں بنی ۔ انھوں نے کہا I can hear with my eyes , تو صحیح کہا کہ وہ تو مجسم آنکھ اور کان تھے۔ وہ تو پوری طرح دیکھتے تھے، سب سنتے تھے اور سب کچھ محسوس کرتے تھے وہ سب جو اس معاشرے میں ہو رہا تھا ، ہو رہا ہے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے دوستی، محبت اور وفا کے اس پیکر اور باقی دوستوں میں ایک عجیب پرکشش تعلق کا احساس ہوتا ہے۔ مری صاحب کا سائیں کمال کی محبت کی چھاؤں میں رہ کر اور افغان انقلاب سے نمٹنے کے کچھ عرصے بعد ماما جمالدینی کا سائیں سے کہنا کہ، ہم سب دوست آپ کے ممنون ہیں کہ آپ نے ہمارے اس محبوب کو ملاؤں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا، اس خوب صورت اور میٹھے تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو ان سب بڑے لوگوں میں تھا اور ہے بھی۔ اور پھر خط و کتابت کا سلسلہ اور تمام دوستوں کا تفصیل سے پوچھنا ایک مزیدار بات تھی۔
جمہوری سوچ کو گہرائی، سائنسی سوچ کو مضبوطی دینے والے اور محکوموں کو مرکزی سٹیج پر لانے والے کی زندگی کی شام ہو گئی اور یہ درخشاں ستارہ بالآخرفطرت کے مطابق غروب ہوا۔ آزاد روح اور آزاد سوچ کے مالک اس بڑے انسان کی وفات پر ریاست کا پرچم سر نگوں نہ ہونا یا تعزیتی پیغام کا جاری نہ ہونا واقعی کوئی دکھ کی بات نہیں کہ ایسے لوگوں کی قبر پر ٹھنڈے آنسوؤں کی بارش ہی ان کی عظمت کی نشانی ہے۔
تو جو بجتی رہتی ہے
کیا کہتی پھرتی ہے
تجھکو اس سے غرض ہی کیا
کون کتنا روتا ہے
کتنے لوگ بچھڑتے ہیں
کتنے ہیں جو قافلوں میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں
کتنے ہیں کہ جنکی نظریں منظروں میں کھوتی ہیں
جانے کیا ہی کھوجتی ہیں
تجھکو کیا خبر کہ وہ
منظروں میں کھو جائیں
وہیں کہیں رہ جائیں
تجھکو اس سے غرض ہی کیا
تو بس بجتی رہتی ہے
قافلہ تو چلتا ہے
قافلے کی گھنٹی بھی
یوں ہی بجتی رہتی ہے
لوگ رہ بھی جاتے ہیں
لوگ مل بھی جاتے ہیں
قافلہ نہیں رکتا
قافلہ تو چلتا ہے!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے