واہموں میں پل رہا تھا
اور آگے چل رہا تھا

کون سی خواہش کی خاطر
ہاتھ اپنے مل رہا تھا

پھول پر سایہ نہیں تھا
دھوپ تھی اور جل رہا تھا

ریت کی بارش میں کیسے
ایک پاگل چل رہا تھا

وقت بھی میرے مماثل
خامشی میں ڈھل رہا تھا

وجد میں مجذوب کیسے
پانیوں پہ چل رہا تھا

اپنی قسمت میں بھی شاید
رات کا جنگل رہا تھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے