زہر سانسیں پی رہا ہے ہر گھڑی
جانے کب ہو خاک پنہاں زندگی
جل رہی ہے انگلیوں کے درمیاں
مدتوں کی بے وجہ حیرانگی
بے چراغ و نور ہے تخت_ رواں
ہمسفر ہر گام ہے بیگانگی
عکس اس کا تیرتا تھا آب پر
اور زیرِ آب تھی دیوانگی
فاخر اسکا پاس رکھنا ہے تمہیں
یہ کٹورا برف بھی ہے آگ بھی