میں نے اُڑتا غبار دیکھا ہے
اپنی مٹی میں پیار دیکھا ہے
اپنی مٹی میں پیار دیکھا ہے
زندگی کے ہر ایک منظر کو
میں نے تو بے قرار دیکھا ہے
اپنی دھرتی پہ زندگی کے لئے
ننگے بچوں کو خوار دیکھا ہے
پانی کی بوند بوند کو ترسے
پنچھیوں کو بیمار دیکھا ہے
میرے ہاتھوں میں اسلحہ دے کر
حکمراں کو تجار دیکھا ہے
برہنا نسل میں نے دیکھی ہے
اور اسے بے حصار دیکھا ہے
میں نے شاہی پوشاک میں خاورؔ
شاہ کو با حصار دیکھا ہے