جانے کیا دیکھتی ہے ۔۔۔آئینہ رو ہوتی نظر
بین کرتی ہوئی آواز …لہو ہوتی نظر

گھر کی سیلن زدہ دیوار پہ لٹکی تصویر
اور وابستہ آئینِ نمو۔۔ہوتی نظر

میں تو بے ڈھال تھا بے ڈھا ل کہاں بچ سکتا؟
تیر کی طرح تھی پیوستِ گلو ہوتی نظر

زخم پر دستِ رفو گر کی کہاں چلتی ہے
تو جو آتا تو کوئی دم میں رفو ہوتی نظر

پھینک دیتا مجھے منجدھار کنارے کی طرف
اے مرے دوست جو تیری لبِ جو ہوتی نظر

میری آنکھوں کو کہاں تاب تجھے دیکھنے کی
میں تجھے دیکھتے رہنا تھا جو تو ہوتی نظر

ہلکے گہرے سبھی رنگوں کو سمیٹا کرتے
گر ہم اندھوں کے تصرف میں کبھو ہوتی نظر

اک صراحی سے رواں زندگیِ تلخ کی مے
خواب پیمانہ بنا جاتا …سبو ہوتی نظر

 

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے