اس کے اکثر دن کانٹوں میں بارشیں تلاش کرتے کرتے ، کچھ بے نام راہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو اُسے سورج کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور پھر سورج آگے بڑھ کر اس کے حلق میں اٹک جایا کرتا ہے ، تب اسے لگتا ہے کہ پل بھر میں ہی اس کے پورے بدن کی کھال گل کر،چٹخ کر اڑ جائے گی۔ اُس میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی کھال کو ادھڑتا اُڑتا دیکھ سکے۔ اس لیے وہ آنکھیں بند کرلیا کرتا ہے ، لیکن پھر فوراً کھول لیا کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی خوبصوت سانولی شاموں کا تصور پتہ نہیں کہاں سے اس کی آنکھوں میں در آتا ہے اور اُس کے تنہا ہونے کے احساس کو بڑھا دیا کرتا ہے ۔پھر ایک بکھری ہوئی نظم اس کا تعاقب کرتی ہے۔ وہ نظم سے بچنے کی پوری پوری کوشش کیا کرتا ہے ، لیکن اس سے اپنا پلو چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ایک نظم لکھنے کے لیے اسے کتنی اذیت اٹھانی پڑتی ہے ؟ صدیوں کا سفر پل صراط پر طے کرنا پڑتا ہے، سوچوں کے کھنڈر میں بھٹکنا پڑتا ہے ۔ گھونسلوں کی ویرانی کی کتنی سسکیاں سننی پڑتی ہیں اور درختوں کی جڑوں میں سوئے کتنے طوفانوں کو جگانا پڑتا ہے۔نظم لکھنے کے لیے کسی کی مسکراہٹ میں ایک ایسا شہر ڈھونڈنا پڑتا ہے، جس شہر میں کسی بھی بے گناہ کو سزا نہ ملتی ہوں، کوئی کسی کے ساتھ بے وفائی نہ کرتا ہو، اور وہاں ، نظم تخلیق کرنے کے لیے اسے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے ؟ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ نظم مکمل ہوجانے کے بعد دل کی دھرتی پر چاندنی کی خوشیوں کے جام سے بھیگا کوئی رقص بھی کیا کرتی ہے ۔ جیون کے یہ لمحات بھی کیا یاد گار ہوتے ہیں!
وہ روزانہ صبح کے وقت باغ سے اپنی محبوبہ کنول کے لیے پھول چننے جاتا ہے، لیکن وہ خود اس سے اتنی دور ہے کہ اس تک صرف خواب ہی پہنچ سکتے ہیں۔ اور اس نے تو اپنے آپ سے خواب دیکھنے کا حق بھی بڑے عرصہ سے چھین رکھا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ پھول توڑنے کے بعد ان کی خوشبو آواز بن کر اسے کہا کرتی ہے، ’’ تم کبھی کچھ بھی نہ پاسکو گے۔ جس ستارے کو بھی اپنا کہو گے، وہ ٹوٹ جائے گا، اپنے محور سے ہٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔ اور کنول کسی اور کو چاہتی ہے ۔ وہ اپنی دعاؤں میں بھی کسی اور کو مانگا کرتی ہے۔ اس کے حسین احساسات کے پھولوں کی تازگی کسی اور کے لیے ہے۔ اس کی سانسوں کی خوشبومیں کوئی اور سمایا ہوا ہے۔ اس کا دل کسی اور کے نام پر دھڑکتا ہے۔ اس کے دل کے شہر کی روشنی کوئی اور ہے ،تم ہر گز ہر گز نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو خوش فہمی کے اس خول سے نکالو کہ وہ تمہیں چاہتی ہے۔ تم کبھی اس کا پیار نہ پاسکو گے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
پھر پھول مرجھا جاتے ہیں، آواز گم ہوجایا کرتی ہے اور وہ غم کے مارے اپنے کچھ آنسو مرجھائے پھولوں کی نذر کرکے، انہیں کسی مصروف سڑک پر پھینک کر، پہلے پہل خود ہی انہیں لتاڑنے لگتا ہے ۔ یہ سب کرتے ہوئے اس کا دل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور وہ بڑی ذہنی اذیت محسوس کیا کرتا ہے۔ لیکن اس وقت اس کے پاس صرف یہی ایک راستہ ہوتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے تو وہ اتنا بھیانک بن جائے کہ جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پھر وہ خود دور کھڑے ہوکر پھولوں کی پامالی کا منظر دیکھا کرتا ہے ۔ اس منظر میں بھی ایک نظم تخلیق شدہ صورت میں موجود ہوتی ہے، لیکن اس کے پاس اسے تحریر کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ پھر وہ وہاں اپنے کچھ آنسو چھوڑ کر درختوں کی طویل قطاروں کی طرف چلا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کچھ دیر بیٹھ کر دفعتاً بے آواز چیخنے لگتا ہے، ’’ مجھے بچاؤ ۔۔۔۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔۔۔۔ درختوں کے ساتھ میں ایک تیز دھوپ رہتی ہے۔ وہ میرے پورے وجود کو جلا کر بھسم کررہی ہے۔ مجھے بچاؤ، میں جل کر راکھ ہوجاؤں گا۔
اس لمحہ اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہتا ہے ، ’’ میں اپنے آنسوؤں کے پھانسی گھاٹ پر خود چڑھنا چاہتے ہوئے بھی چڑھنا نہیں چاہتا ۔ پلیز! مجھے بچاؤ۔۔۔۔۔۔ پھر تم مجھے بالکل مار دو ، لیکن اب مجھے مرنے سے بچا لو۔ مجھ پر احسان کرلو۔۔۔۔۔۔‘‘۔ لیکن اس کی آواز سُن کر ہوائیں اپنے رُخ بدل لیا کرتی ہیں، پرندے گھونسلوں سے بھڑک کر اڑتے اور انجانے ٹھکانوں کی طرف چلے جایا کرتے ہیں۔ چھوٹی خودرو سبز گھاس زمین کی چھاتی میں چھپ جایا کرتی ہے اور دماغ پر پتہ نہیں کہاں سے تازہ تراشی ہوئی پہاڑی بیری کی کانٹوں بھری جھاڑیاں آکر گرجایا کرتی ہیں اور سورج ایک بار پھر اس کے گلے میں آکر اٹک جایا کرتا ہے۔
پھر اس کے ہاتھ خود بخود اپنے گلے کی طرف بڑھ جاتے ہیں، لیکن اس پل کنول کی آنکھیں اسے بچالیا کرتی ہیں۔ وہ آنکھیں، جنہوں نے اسے اتفاقی ملاقاتوں میں تسلی دی تھی کہ ’’ میں صرف تم سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
اس دن بھی اس نے اس کے منہ سے یہی الفاظ سننے چاہے تھے کہ ،’’ میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں‘‘۔ لیکن وہ چپ رہی تھی، تب پتہ نہیں کیوں اسے یقین ہوگیا تھا کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتی اور اسی غم کے نتیجہ میں وہ اپنے دو ستوں کے ہاں شہر چلا گیا تھا۔( اسے جب بھی برداشت سے باہر غم ملا کرتے ہیں تو تب وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کی طرف چلا جایا کرتا ہے)۔ اگلے دن وہ اکیلا سڑکوں پر آوارگی کرتا، سامنے فٹ پاتھ پر ایک نوجوان پامسٹ دیکھ کر اس کی طرف کھینچتا چلا گیا، بغیر کسی ارادے کے ۔ نوجوان پامسٹ بہت خُوب رو تھا، لیکن وہ اسے اپنی طرح ہی اداس اداس محسوس ہوا۔ شاید یہی سبب تھا کہ وہ اس کی طرف کھینچتا چلا گیا تھا۔
’’تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘‘ پامسٹ نے اس کا ہاتھ دیکھ کر اداس لہجے میں پوچھا۔
’’ کیا مجھے مرنا چاہیے؟‘‘۔ اس نے اذیت بھرے لہجے میں کہا۔
اس کے اس طرح کے استفسار پر پامسٹ چونک کر خاموش ہوگیا۔ اس نے دوبارہ سوال کیا، ’’ یار ! بتاؤنا ! کیا مجھے مرنا چاہیے؟‘‘۔
’’پتہ نہیں‘‘۔ پامسٹ نے حیرانی اور اضطراب سے جواب دیا۔
کچھ پل خاموش رہنے کے بعد اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ، ’’ کیا کنول مجھے چاہتی ہے؟‘‘۔
’’ کون ہے کنول؟‘‘ پامسٹ کے چہرے پر دوبارہ حیرانی کی لکیریں پھیل گئیں۔
’’ میری کائنات، میری محبت‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’ یہ تم اپنے آپ سے پوچھو‘‘۔ پامسٹ نے کہا۔
’’ کبھی مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھے پیار کرتی ہے اور کبھی لگتا ہے کہ میں ہی دنیا کا وہ واحد آدمی ہوں،جس سے وہ شدید نفرت کرتی ہے‘‘۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ نوجوان پامسٹ نے معصومیت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’ تم اسے پانا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’ ہاں ، میں اسے پانا چاہتا ہوں۔ لیکن اگر نہ پاسکا تو کچھ اتنا غم بھی نہیں ہوگا۔کیونکہ وہ مجھے چاہتی ہے، صرف یہی خیال ہی میرے لیے سب کچھ ہے‘‘۔
’’ تم صحیح کہہ رہے ہو کہ وہ صرف تم سے پیار کرے‘‘۔ پامسٹ نے آہستہ بڑبڑاتے ہوئے کہا اور صدیوں کی کوئی ویرانی اس کے چہرے پر چھاگئی۔
’’ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے کچھ تجسس کے ساتھ کہا۔
’’ کچھ بھی تو نہیں‘‘۔ اس نے یہ الفاظ یوں کہے کہ جیسے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو۔
’’ لیکن ، دوست ! مجھے یہ تو بتانا کہ کنول مجھے چاہتی ہے کہ نہیں؟ میرے ہاتھ میں خوش بختی کی کوئی ایسی لکیر ہے ؟‘‘۔ بے چینی اور اذیت کے مارے ، اس کے اندر کی گہرائیوں سے آواز ابھری۔
’’ مجھے پتہ نہیں‘‘۔ نوجوان پامسٹ نے بے بسی سے کہا۔
’’ اُس نے دل میں کہا، ’’یہ کیسا پامسٹ ہے؟ اسے تو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا ‘‘۔ اور اس نے کچھ کہنا چاہا ، لیکن قبل اس کے پامسٹ اپنے سامنے پڑے فال والے تمام لفافے عالم دیوانگی میں دور دور پھینکنے لگا۔ یہ دیکھ کر اس نے پامسٹ سے کہا ، ’’ یہ کیا کررہے ہو؟‘‘۔
’’ دوست! یہ سب چھل کپٹ ہے، بھوکا پیٹ بھرنے کا ڈرامہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں بھی اسی کرب سے گزر رہا ہوں، جس سے تم گزر رہے ہو۔اب یہ کہانی ختم ہونی چاہیے۔ مجھے پامسٹ کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے ‘‘۔
پھر وہ پنجرے میں قید طوطے کو اڑاکر اس کی طرف بڑھ آیا اور اسے شانوں سے پکڑ کر کہا ’’ اے میرے اجنبی دوست ! اپنی کہانی بالکل ایک جیسی ہے ۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کیا میری صفیہ مجھے چاہتی ہے؟‘‘۔
اور پھر اس نے شدت سے محسوس کیا کہ اس کے گلے میں بھی سورج اٹک گیا ہے۔