مارتھا اور والٹر فاؤ کے گھر9ستمبر 1929کو جنم لینے والی روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤان کی پانچ بیٹیوں میں سے چوتھی تھی۔ ان پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی شیر خوارگی کے دنوں ہی میں چل بسا تھا۔ والٹر فاؤ مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ کی ایک اشاعتی فرم میں کام کرتے تھے۔لائپزگ قدیم زمانے ہی سے اشاعتی صنعت کا ایک اہم مرکز رہا تھا۔اس کا سالانہ کتاب میلہ، جو ہر مارچ میں منعقد ہوتا تھا، ایک جانے پہچانے تہوار کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔ وہاں کی یونیورسٹی1409 میں قائم ہوئی تھی۔ 1913 میں نئی قائم شدہ جرمن لائبریری کی چھت کے نیچے جرمن زبان کا پورا ادب ذخیرہ کردیا گیا تھا۔
عظیم جرمن شاعر،ڈرامہ نگار اور مصنف گوئٹے (1832-1749) کی مشہور تصنیف‘‘ فاؤسٹ‘‘ میں بیان کردہ لفظوں میں’’ لائپزگ مجھے بیحد عزیز ہے ، ایک چھوٹا سا پیرس، وہ اپنے شہریوں کی شائستگی کو کتنی عمدگی سے پروان چڑھاتا ہے ‘‘۔ مغربی کلاسیکی موسیقی کے باوا آدم باخ (1750-1685)نے موسیقار کے طور پر اسی شہر میں اپنا مقام حاصل کیا اور اپنی معروف کمپوزیشنیں تیار کیں جو کلاسیکی موسیقی کے شاہکاروں کا درجہ رکھتی ہیں۔1929 میں اسی لائپزگ شہر میں روتھ فاؤ نے جنم لیا۔
جب مارتھا فاؤ کی چوتھی بیٹی ان کے پیٹ میں آئی، اس وقت تک اڈولف ہٹلر کی نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی یا نازی پارٹی کے برسراقتدار آنے کا بیج بویا جا چکا تھا۔ آسٹریا میں پیدا ہونے والے ہٹلر نے اپنا منصوبہ پوری تفصیل کے ساتھ 1923 میں اپنی کتاب ’’ مائن کا مف‘‘ یا ’’ میری جنگ‘‘ نامی کتاب میں بیان کردیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق ’’ سرطانی جمہوریت‘‘ کا خاتمہ کیا جانا تھا ، کمیونسٹوں، یہودیوں اور مارکسسٹوں کو جلا وطن کیا جانا تھا اور پوری دنیا پر جرمن قوم کا غلبہ قائم کیا جانا تھا۔ اس کے بعدکے برسوں میں اس نے اپنی پارٹی کو منظم انداز میں تعمیر کیا۔
روتھ کی پیدائش کے سات ہفتے بعد بیسویں صدی کی بد ترین معاشی ابتلا واقع ہوئی۔29اکتوبر1929 کو نیو یارک کا سٹاک ایکسچینج کریش ہوگیا۔ وال سٹریٹ کے اس ’’ سیاہ منگل‘ کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ زرعی اجناس کی قیمتیں زمین پر آرہیں، فیکٹریوں پر تالے پڑنے لگے۔ لائپزگ میں، جو جرمنی کے صنعتی خطے کے قلب میں واقع تھا، تمام صنعتی سرگرمی تھم گئی۔
لیکن گھر کے پیار بھرے اور تحفظ کا احساس دلانے والے ماحول میں پروان چڑھنے والی روتھ اس ’’ گریٹ ڈپریشن‘‘ کے اثرات سے کم و بیش بے خبری کے عالم میں بڑی ہوئی۔ اس کی زندگی کے ابتدائی سال میں اپنی بڑی بہنوں کے ساتھ اپنے وسیع خاندانی مکان کے اردگرد لگے باغ کے سیب کے درختوں پر چڑھنے کی سرگرمی میں گزرے۔ اسے اپنے باغ میں اگنے والی چیریوں کا شیریں ذائقہ بہت بھاتا تھا۔ کھٹی چیریوں کو جام بنانے کے لیے توڑا جاتا ۔ وہ سب بہنیں باری باری سے اپنے والد کے بنائے ہوئے چھوٹے سے تالاب میں غوطے لگاتیں اور انہیں ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے اڑانے میں بہت مزہ آتا تھا ۔ پھر وہ سب باغ کی چکنی مٹی سے قلعے بناتیں جن کے اونچے دروازوں میں سے چمکیلی رنگدار وردیوں والے ننھے مٹی کے سپاہیوں کو اندر باہر مارچ کرایا جاتا۔
روتھ اکثر پڑوس میں رہنے والی اُرسلا کے ساتھ اس کے خرگوشوں کے قبیلے کو کھانا کھلانے چلی جاتی جو اپنے لمبے کانوں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہری گھاس پر قلانچیں بھرا کرتے۔ لیکن اسے خود اپنا پالتو سبز طوطا سب سے زیادہ پیارا تھا جو اپنے پنجرے سے چھلانگ لگا کر نکلتا اور روتھ کی شہادت کی انگلی پر آبیٹھتا اور وہ اسے اٹھائے اٹھائے فخر سے پورے گھر میں اس کی نمائش کرتی گھومتی ۔ لیکن ایک غمناک دن طوطا ایک کھلی کھڑکی سے نکل کر پرواز کر گیا اور روتھ کو اس خیال سے اشکبار چھوڑ گیا کہ وہ رات کو کہاں سوئے گا اور دن میں اسے کون کھانا دے گا ۔ اس وقت انہیں معلوم نہ تھا کہ خود انہیں بھی ایک دن اسی طرح اڑ جانا ہے ۔ لیکن سبزی فروش نے ، جو ہفتے میں دوبار اپنی گھوڑا گاڑی پر محلے میں سبزی بیچنے آیا کرتا تھا،روتھ کی والدہ کو پہلے ہی سرگوشی میں خبردار کردیا تھا:’’اپنی چوتھے نمبر والی بیٹی سے ہوشیار رہیے گا۔ وہ آپ کے پسند کیے ہوئے مرد سے شادی نہیں کرنے والی۔یہ خود اپنے دماغ سے سوچتی ہے‘‘۔ روتھ کے والدین نے بھی ہنستے ہوئے اس خیال کی تصدیق کی کہ ان کی گہرے گھونگھریالے بالوں اور چمکیلی آنکھوں والی بیٹی ایک پر عزم دماغ کی مالک ہے۔
گریٹ ڈپریشن یا عظیم معاشی کساد بازاری نے استحکام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ معاشی، سیاسی اور سماجی تنازعات بڑھنے لگے۔ ہر طرف شدید بے روزگاری اور سیاسی انتہا پسندی پھیل گئی۔ اس صورت حال کو چابکدستی سے استعمال کرکے ہٹلر نے کلیدی سیاسی حیثیت حاصل کرلی۔ اس کی تصویریں اور پوسٹر ہر طرف دکھائی دینے لگے۔ لیکن روتھ کے والد سے یہ شخص کسی طرح برداشت نہ ہوتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ان کی بیٹی کو سکول میں ریاضی اور سلائی کڑھائی کے مضمون ناقابلِ برداشت لگتے تھے۔
1933کے آتے آتے روتھ چار سالہ باتو نی بچی بن چکی تھی اور نازی پارٹی رفتہ رفتہ اتنی طاقتور ہوچکی تھی کہ اس کے زور پر ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کردیا گیا تھا۔ہٹلر نے بہت جلد خود کو تمام آئینی اور پارلیمانی پابندیوں سے آزاد کرالیا۔ نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی کو ریاستی پارٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ دوسری تمام پارٹیوں پر پابندی لگادی گئی، ٹریڈ یونینوں کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور حزب اختلاف کے اخبار زبردستی بند کردیے گئے۔ ججوں کو فیوہرر کے کسی فیصلے سے اختلاف کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہ رہا۔ ریاست نے نگرانی کا ایک طاقتور نظام قائم کرلیا۔’’ ریاست کے دشمنوں‘‘ کی فہرست میں کمیونسٹ، یہودی، مارکسسٹ ، سیاسی طور پر فعال کلیسا، سیاسی بے اطمینانی میں مبتلا افراد، غلامی کے خاتمے کے حامی اور ہم جنس پرست شامل تھے۔ پولیس ، ایس اے اور ایس ایس نامی ایجنسیوں کے ذریعے پارٹی نے مطلق العنان اقتدار حاصل کرلیا۔ ایس ایس خود کو ایلیٹ فورس خیال کرنے لگی۔ روتھ اپنے گھر کی بالکونی سے بھوری وردیوں میں ملبوس سپاہیوں کو سڑک کے اُس پار واقع پار ک میں بازوؤں پر سوا ستیکا کے بلّے لگائے، ڈھول کی تھاپ پر مارچ کرتے دیکھتی اور خوف سے کانپنے لگتی۔
ہٹلر جرمن رائش ( سلطنت ) اور جرمن قوم کا فیوہرر( قائد) بن بیٹھا۔ نسل پرست نظریے کا پرچار کیا جانے لگا۔ ریاستی تعلیمی ادارے بچوں کو ’’ جرمن کے سوا کچھ نہ سوچنے ، خود کو جرمن محسوس کرنے اور جرمنوں کی طرح برتاؤ کرنے ‘‘ کا درس دیا کرتے۔ روتھ نے بھی اپنے سکول میں یہی تعلیم حاصل کی کہ جرمنوں کی اعلیٰ نسل کو ’’ رہنے کے لیے گنجائش‘‘ درکار ہے۔ اس کے کمسن ذہن میں خیال آتا:’’ ہمارے اردگرد اتنی ساری جگہ تو پہلے ہی موجود ہے۔ پھر ہمیں رہنے کے لیے مزید گنجائش آخر کیوں درکار ہے ؟‘‘۔ لیکن سوال کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ سب کو معلوم تھا کہ ریاست کے مخبر ہر جگہ موجود ہیں۔
نوجوانوں کی تمام انجمنوں پر پابندی لگادی گئی، اور ان سب کی جگہ ’’ ہٹلر یوتھ موومنٹ ‘‘ نے لے لی جو نیشنل سوشلسٹ نظریے کی تعلیم اور فوجی بھرتی سے قبل کی تربیت کا آلہ بن گئی۔ تمام لوگوں کی طرح روتھ کے والدین نے بھی اپنی بیٹیوں کو موومنٹ کا رکن بنوایا۔ بچے سڑکوں پرپارٹی کے نغمے گاتے ہوئے مارچ کیا کرتے ، اس بات سے یکسر بے خبر کہ ا ن کا مالک ایک جنگ کی تیاری کررہا ہے۔
1933 کے بعد دنیا کی معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے تو جرمنی کی حالت بھی سنبھلنے لگی۔ نیشنل سوشلسٹو ں نے عوامی تعمیراتی سرگرمیوں کے ذریعے روزگار پیدا کرنے کا ایک پروگرام شروع کیا جس نے ملک کو ازسرِ نو مسلح کرنے کے منصوبے کے ساتھ مل کر بے روزگاری کی شرح کو خاصا کم کردیا۔ لیکن یہ تمام سرگرمیاں بیرونی زرِ مبادلہ، قرضوں اور نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے ذریعے چلائی جارہی تھیں۔ سرکاری قرضے اتنی اونچی سطح پر جاپہنچے جہاں پہلے کبھی نہ پہنچے تھے ۔ روتھ کی سکول کی تعلیم جاری تھی۔ اسے ادب اور حیاتیات کے مضامین پڑھنا پسند تھا اور وہ سکول کے باغ میں بیج بونے، پودوں کو سیچنے اور زندگی کو نموپاکر بڑھتا ہوا دیکھنے میں وقت صرف کرتی اور اس کا لطف اٹھاتی تھی۔ اپنی عام سے خدوخال کی حامل موسیقی کی ٹیچر کی رسیلی آواز سن کر اس پر وجد طاری ہوجاتا ۔ بیشتر استانیاں روتھ سے بہت لا ڈ کر تیں جس پر اسے بے اطمینانی سی محسوس ہونے لگتی۔’’ آخر میری وجہ سے دوسرے بچے ان کی توجہ سے کیوں محروم رہیں؟‘‘۔ وہ سوچا کرتی۔
تب ہی یہود دشمنی کی ایک لہر اٹھی اور یہودیوں اور ان کی املاک کے خلاف پر تشدد واقعات رونما ہونے لگے۔ ’ایرین پیراگراف‘ یہودی ڈاکٹروں ، وکیلوں، صحافیوں اور فنکاروں کے خلاف قانونی کاروائیوں کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ مے خانوں، کلبوں اور عوامی پارکوں میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی لگادی گئی۔ آرٹ گیلریوں، لائبریریوں اور تھیٹروں سے یہودیوں کے فن پارے ہٹادیے گئے۔یہودی شخصیات کے نام پر بنائی گئی سڑکوں کے نام بدلے جانے لگے۔نومبر1938 میں جرمن ایمپائر کی ، کرسٹل ناخت، یا ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات کو پولیس اور ایس اے کے سپاہیوں نے تمام یہودی عبادت گاہوں کو جلا ڈالا، یہودیوں کی دکانوں کو تباہ کردیا، ان کی املاک کو لوٹ لیا گیا اورمالدار یہودیوں کو گرفتار کرکے کنسنٹریشن کیمپوں میں ڈال دیا گیا۔
روتھ کی کلاس میں پڑھنے والی یہودی لڑکی گابی غائب ہوگئی اور پھر کبھی واپس نہ آئی۔ روتھ مسلسل سوال کرتی رہیں کہ گھونگھریالے سنہرے بالوں اور گلابی رخساروں والی ان کی پیاری سہیلی آخر کہاں چلی گئی۔ لیکن انہیں کسی سے اپنے سوال کا جواب نہ ملا۔ جب ان کی بڑی بہن والٹراڈ کی زبان سے ’’ کنسنٹریشن کیمپ‘‘کا لفظ نکلا تو ان کی ماں نے پہلی بار اپنی کسی بیٹی کو سخت لہجے میں اپنی زبان بند رکھنے کو کہا۔
بعد میں انہیں پتہ چلا کہ کس طرح یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو کنسنٹریشن کیمپوں میں فائرنگ سکواڈز کی سیدھی فائرنگ سے یا گیس چیمبروں میں زہریلی گیس چھوڑ کر ہلاک کیا گیا۔ بہت سے یہودی نا کافی غذ ا یا شدید مشقت کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ ان سب کی کل تعداد ساٹھ لاکھ تک جا پہنچی۔
گابی کی مسکراتی ہوئی نیلی آنکھیں روتھ کے ذہن پر کئی برس کے لیے مسلط ہوکر رہ گئیں۔ انہوں نے کتنے ہی پر مسرت موقعوں پر گابی کو اپنے سالگرہ کے کیک کی بتیاں پھونک مار کر بجھاتے دیکھا تھا۔
روتھ کی دسویں سالگرہ سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے ہٹلر نے ، ’’ اعلیٰ جرمن نسل‘‘ کے لیے ’’ رہنے کی گنجائش ‘‘ حاصل کرنے کی غرض سے، اپنے توسیع پسندانہ، سامراجی منصوبے کا آغاز کردیا، یکم ستمبر1939 کو پولینڈ پر کیے جانے والے حملے نے ہٹلر کے ’’ بلٹزکریگ‘‘ یا کڑکتی بجلی جیسی جنگ کے تصور کو واضح کردیا۔ جس وقت روتھ اپنی دسویں سالگرہ کی منتظر تھیں، بنی نو ع انسان کی تاریخ کی عظیم ترین جنگ، دوسری عالمی جنگ، شروع ہوچکی تھی۔
1943 میں اتحادی فوجوں نے اپنے فضائی حملوں میں اضافہ کردیا اور شہری آبادیوں کو بھی نشانہ بنانے لگیں۔ کوئی رات ایسی نہ جاتی جب فضائی حملے کے سائرن کی آواز سے دہشت کے عالم میں ان کی آنکھ نہ کھلتی ہوا ور خوف سے کانپتے ہوئے تہہ خانے میں جاکر پناہ نہ لینی پڑتی ہو۔
4دسمبر1943 کی رات کو شدید بمباری ہوئی ۔ روتھ کو پڑوسیوں کے بچوں کی چیخوں اور ان کے بڑوں کی دعاؤں کی آوازیں سنائی دیں۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اس رات زندہ باہر نہ نکل پائیں گی۔ صبح کے وقت انہیں اپنے گھر والوں کو زندہ پاکر سخت تعجب ہوا۔ لیکن ان کے مکان کی پہلی منزل کو، جہاں روتھ کی خوابگاہ اور مطالعے کا کمرہ واقع تھا، بمباری سے سخت نقصان پہنچا تھا۔اس کی چھت اڑ گئی تھی۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں اور فرش سے پانی رس رہا تھا۔ دروازے اکھڑ کر اپنی چوکھٹوں سے الگ ہوگئے تھے اور کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہوچکے تھے۔ بجلی کی سپلائی منقطع ہوچکی تھی، پانی کے پائپ ٹوٹے پڑے تھے اور نکاس کا نظام تباہ ہوچکا تھا ۔ ہر طرف گردوغبار پھیلا تھا اور شیشوں کی کرچیاں بکھری ہوئی تھیں۔
روتھ کے والد والٹر فاؤ نے اپنے بیوی بچوں کو دیہات میں اپنی والدہ کے گھر لے جانے کا ارادہ کیا جو بمباری سے محفوظ رہا تھا۔ روتھ کی دو بڑی بہنیں والٹراڈ اور ریجینا اسلحے کی فیکٹری میں اپنی ڈیوٹی کررہی تھیں ا ور تیسری آرمگارڈ سکول کے کیمپ میں مشغول تھی،اس لیے والدین نے روتھ اور ان کی چھوٹی بہن باربر اکو ساتھ لیا اور کچھ ضروری سامان لے کر روانہ ہوگئے۔ وہ جلتی ہوئی گلیوں میں سے ہوکر گزرے اور انہیں ملبے کے ڈھیروں پر چڑھ کر اور زمین پر پڑی لاشوں کو پھلانگ کر آگے بڑھنا پڑا ۔ گر دو غباراور دھواں ان کی آنکھوں کو اندھا کیے دے رہا تھا، جلی ہوئی لاشوں سے اٹھتے تعفن سے ان کی سانس بند ہوجارہی تھی۔ وہ لوگ روتھ کی دادی اماں کے گھر شام کے وقت تھکن اور صدمے سے نڈھال پہنچے۔
لڑکیوں کو ان کی دادی کے پاس چھوڑ کر والدین لائپزگ واپس روانہ ہوگئے جہاں انہیں اپنے مکان کی دیکھ بھال کرنی تھی۔ لیکن سال بھر کے اندر گھر کے سب لوگ دوبارہ اکٹھے ہوگئے، کیونکہ لائپزگ شہر پر بار بار ہونے والی بمباری کی خبریں سنتے ہوئے اپنے والدین سے دور رہنا روتھ اور بار برا دونوں بہنوں کے لیے بہت دشوار ثابت ہورہا تھا۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے