ساشا دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے فلیٹ میں داخل ہوئی اور ہال نما بڑے کمرے کا دروازہ بجاتے ساتھ ہی اندرچلی گئی، جہاں غزالی ہمیشہ کی طرح ایزل سجائے کھڑکی کی جانب پیٹھ کیے کینوس پر کچھ پینٹ کر رہا تھا۔
’’ہیلو ! کیا پینٹ کیا جا رہا ہے؟‘‘ ساشا نے پوچھا۔
’’بھوک!‘‘ غزالی نے جواب دیا۔
’’بھوک ۔۔۔؟ ‘‘ ساشا بیگ کرسی پر پھینکتے ہوئے گھوم کر دوسری طرف آتے ہوئے بولی۔
’’ہاں!‘‘ غزالی نے اسی طرح رنگوں اور کینوس سے کھیلتے ہوئے جواب دیا۔
کینوس پرایک ننگ دھڑنگ بچہ مکھیوں کے جھرمٹ میں بیٹھا کھیل رہا تھا۔ دیواروں پربارش کے ٹپکنے کے آثار نمایاں تھے۔ گارے مٹّی کے اس کچّے کمرے کے ایک کونے میں چند ٹوٹے پھوٹے صندوق منہ کھولے پڑے تھے۔ ایک پھٹی پرانی دری کمرے کے کچّے فرش کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اس کمرے کے دوسرے کونے میں ایک عورت بجھی آنکھوں اور ٹوٹی حسرتوں کی تصویر بنے جانے کیا ہانڈی میں چڑھائے ہوئے تھی۔اس کے ارد گرد مرچ مصالوں کے میلے ڈبّے بکھرے ہوئے تھے۔
’ ’اُف ! یارکیا تمھیں بہت محبت ہے اس بھوک سے؟ ان ذرد چہروں کو پینٹ کرتے ہوئے تمھیں وحشت نہیں ہوتی؟‘ ‘ساشا جھرجھری لیتے ہوئے بولی۔
’’ ہاں مجھے محبت ہے اس حقیقی احساس سے ۔۔۔اور بھوک اس حقیقی احساس کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔۔۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے بھوک! صرف ایک روٹی!!اس ایک زندہ حقیقت کے سامنے دنیا کے سارے فلسفے پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘‘
’’ مائی گاڈ ! یارہر وقت کا رونا، ہر وقت غم۔ دنیا میں خوشی بھی تو ہے، محبت ہے۔ یہ سب کیوں پینٹ نہیں کرتے۔ اور میرے خیال سے تو زندگی کا سب سے بڑا احساس بھوک نہیں ، محبت ہے۔‘‘ ساشا نے گویاچڑتے ہوئے کہا۔
’’ اس سب کو پینٹ کرنے کے لیے تم جیسے لوگ جو ہیں۔۔۔‘‘ غزالی کے چہرے پرمسکراہٹ بکھر گئی، ’’ اورساشا بیگم، ایسا انسان جس نے کئی دن سے کھانا نہیں کھایا ہو، روٹی کی شکل تک نہ دیکھی ہو، جس کی آنکھوں کے گرد بھوک نے حلقے بنائے ہوں۔ جس کا پیٹ بھوک کی وجہ سے پیٹھ سے جا لگا ہو تم اس سے کبھی محبت کا پوچھو تو اسے چاند بھی ایک روٹی نظر آئے گا ، اسے محبوب کاچہرہ بھی روٹی کی صورت دکھائی دے گا، مانو اس حقیقت کو ، کہ پیٹ بھرا ہو تومحبت بھی تب ہی ہو سکتی ہے۔ یہاں آکر تو محبت بھی ہار جاتی ہے کہ دنیا میں محبت سب کچھ فتح کر سکتی ہے، سوائے بھوک کے‘‘۔ غزالی نے کہا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ کام صرف تم کرتے ہو؟ ہم کوئی کام نہیں کر رہے۔ یہ بڑے بڑے سیمینار کون کر وا رہا ہے؟ بڑے مشہور لوگوں سے اس موضوع پر کون بات کر رہا ہے؟ اخبار بھرے پڑے ہیں ہمارے کام سے۔ تم پینٹنگ سے سمجھتے ہو کہ تم بڑا کام کر رہے ہو‘‘۔ ساشانے جلے بھنے انداز میں کہا۔
’’تم جیسے لوگ جو صاف ستھرے روشن کمروں میں صوفوں پر بیٹھ کر غربت ، بھوک پر سیر حاصل گفتگو تو کر سکتے ہو لیکن تم کیا جانو کہ یہ سب کیا ہے۔ تم ان کمروں سے نکل کر کبھی ان غربت کے مارے لوگوں، ان بچوں ، ان عورتوں سے ملو جن کے بھوک سے نڈھال وجود اور مرجھائی ہوئی آنکھیں تمھیں بتائیں گی کہ بھوک کیا ہے۔ان بچوں سے ملوجوکچرے کے بھبکے اڑاتے ڈھیروں پر اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ اس مزدور سے جا کے پوچھو جو صبح کے دھندلکے میں چوک پر بیٹھ کر مزدوری کا انتظار کرتے کرتے شام کو اپنی حسرتوں اور بھوک کی چھابڑی سمیٹ کر گھر کا رخ کرتا ہے، جہاں اس کے بچے خالی پیٹ سو چکے ہوتے ہیں اور اس کی بیوی زرد رنگت لیے نقاہت بھری آنکھوں کے در بمشکل وا کیے رکھتی ہے‘‘۔ غزالی کی آنکھیں بہت ویران لگ رہی تھیں۔
’’ یار ہر وقت فلسفے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تمہاری یہ باتیں، چلو اٹھو کہیں باہر چلتے ہیں۔‘‘ ساشا نے منہ بنا کربیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں ہاں‘ واقعی تم کیا سمجھو ، تم کیا جانو ان باتوں ، ان فلسفوں کو۔ بھوک کے فلسفے کو تو صرف کوئی بھوکا ہی سمجھ سکتا ہے۔ تم کیا جانو کہ سینٹورس سے باہر غریب لوگ اپنی زندگی کی سزا کو کیسے بھگت رہے ہیں۔ کس طرح وہ اس قید سے آزادی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ حسرت و یاس کی یہ صورتیں ہمارے معاشرے کے ضمیر پر ایک تازیانہ ہے، لیکن اس کو سمجھے کون ساشا بیگم، چلو۔۔۔‘‘ غزالی وہی شکن آلود لباس پہنے ہوئے الجھے بالوں کے ساتھ اس کے ساتھ چل پڑا، جس سے ساشا کو تپ تو خوب چڑھی لیکن وہ اس کی عادت سے واقف تھی لہٰذا چپ رہی۔
بڑے سے شاپنگ مال میں داخل ہو کر غزالی کو یوں لگا کہ جیسے وہ روشن چہرے، خوشبوؤں میں بسے وجود ، وہ روشنیاں، کچھ بھی اس دنیا کا حصہ نہیں۔ زمین کا وہ ٹکڑا کسی اور سیارے کا حصہ ہے۔ اسے اپنا آپ وہاں ایک غیر مرئی مخلوق(Alian)سالگا۔ چیزوں، لوگوں اور روشنیوں سے ایک دم سے اس کا جی اکتا گیا۔ دل بھر سا گیا۔ اسے عجیب کراہیت کا سااحساس ہونے لگا۔ باقاعدہ متلی ہونے لگی۔وہ بھاگ کر مال سے نکل آیا اور کھلی فضا میں لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ ساشا حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ خاموشی سے مال سے نکل آئے۔
’’غزالی ایک بات پوچھوں؟‘‘ ساشا نے سوچوں میں گم کہا۔
’’ ہاں پوچھو‘‘، غزالی نے جواب دیا۔
’’ تم اکیلے ہو اور کوئی نہیں۔ تم اپنی پینٹنگ سے جتنا کما لیتے ہو تمھاری ضروریات سے بڑھ کر ہے۔ پھر تم کیوں اتنا پریشان رہتے ہو ، اتنامایوس رہتے ہو؟‘‘ ساشا نے کہا۔
’’بات یہ ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں اکثر لوگ صرف اپنی ذات کو دیکھتے ہیں ۔ صرف اپنا آپ انھیں نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی فرق نہیں آ رہا ، ہاں بس اتنا کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلاجا رہاہے۔ اور ایسے معاشرے کو کسی طور متوازن معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ خود سوچوساشاکہ معا شرہ ایک جسم کی مانند ہوتا ہے اور دولت خون ۔اور جب خون جسم کے کسی ایک یا چند حصوں کو ہی پہنچے گا تو سارا جسم ہی مفلوج ہو کہ رہ جائے گا نا۔ سو ہمارا معاشرہ ایک مفلوج معاشرہ ہے اور ہم اس کا حصہ ہیں اور اس کے اثر سے ہم بچ نہیں سکتے۔اور پھر میں نے غربت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے ،اس لیے میں اس غربت کے عذاب سے اچھی طرح واقف ہوں۔‘‘ غزالی نے تفصیل سے جواب دیا۔
’’تمھاری پینٹنگ کی نمائش بھی تو ہونے والی ہے، تم تو بہت خوش ہوگے؟‘‘ ساشا نے موڈ بدلنے کو کہا۔
’’غریب کے مسائل ساری زندگی اس کی روح کو، اس کے پورے وجود کو ایک چھاننی کی طرح چھلنی کر دیتے ہیں، ایسے میں کوئی بھولی بھٹکی ہوئی کوئی خوشی مل بھی جائے تواسے سمجھ نہیں آتی اس کا ردِ عمل کیا ہو، وہ ایڈجسٹ ہی نہیں کر پاتا اس خوشی کے ساتھ‘‘ ۔ غزالی بہت اداس تھا۔ ساشا بھی اس کے بعد خاموش رہی۔
غزالی کے ایک کمرے کے فلیٹ میں پہنچ کر اس نے تو رنگ اور برش اٹھا لیے اور ساشا بڑی سی کھڑکی کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ کرخاموشی سے باہر دیکھنے لگی۔ وہ ایک گہری سوچ میں تھی۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد غزالی نے مڑ کراس کی طرف دیکھا۔ اسے سوچوں میں گم پا کر کہا،’ ’چائے پیوگی؟‘‘
اس نے ہاں نا کہے بغیر پوچھا ،’’ تمھاری پینٹنگ کی نمائش کب ہے؟‘‘
’’ تین دن بعد‘‘۔ غزالی نے واپس پینٹ کرنا شروع کیا۔
ساشا بات کیے بنا اپنا بیگ اٹھا کرکمرے سے نکل گئی اور غزالی اسی تیزی سے برش چلاتا رہا۔
کچھ دن بعد آرٹس کونسل میں غزالی کی تصویروں کی نمائش تھی۔ خلافِ معمول اس روز اس کا چہرہ شگفتگی لیے ہوئے تھا۔ ساشا ہال میں داخل ہوئی تو غزالی ایک بڑے سے جمگھٹے میں کھڑا اُسی تصویر کے بارے میں بتا رہا تھا،جسے پینٹ کرتے ہوئے اُس روز ساشا سے اس کی بحث ہو گئی تھی۔
ساشا اسی جانب چل دی۔تب ہی اس کے کانوں میں غزالی کی آواز گونجی،’ ’میں اپنے بچپن کی بھوک کو بیچ کر اپنی آج کی بھوک مٹا رہا ہوں۔یہ میرا بچپن ہے۔ آج بیس سال بعد بھی میرے پیٹ میں بھوک کھنک رہی ہے۔۔۔‘‘
اور ساشا کے قدم وہیں رک گئے۔