شاعروں کے الفاظ بہت ہی گہرے ہوتے ہیں شاعروں نے ہمیشہ سے ہی وطن دوستی، زبان دوستی، قوم دوستی ، امن اور محبت کو اپنی شاعری کے ذریعے سے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں جہاں غربت، پسماندگی، سردار و نوابوں کی ظلم و زیادتی نے عوام کو اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے میں ہمت بخشی جہاں بزگروں نے ششک کے نظام کے خلاف آواز بلند کی تو وہیں بیسویں صدی کو سرزمینِ جھاؤ میں ایک ایسے شخص کا جنم ہوا جس نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے پسماندہ طبقوں کی ترجمانی کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لئے اپنی شاعری کا استعمال بھی کیا۔
میر آدم حقانی کا جنم 1917ء کوحاجی زہری کے ہاں جھاؤ میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے یہیں سے حاصل کی مزید تعلیم حاصل کرنے کراچی چلے گئے۔ میٹرک تک اپنی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ اس کے دل میں اپنے سرزمین سے ایک خاص لگاؤ تھا ۔اسی لگاؤ اور ظلم و زوراکی نے اس کے اندر شاعرانہ صلاحیتیں پیدا کیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1937ء کو کیا۔ ادب کے شعبے سے وابستگی نے انہیں آزات جمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی سے قریب کر دیا تھا۔ اسی قربت نے اسکی شاعری کو ماہتاک ’’ بلوچی‘‘ کا اہم شعری جز بنا لیا۔بقول ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی، آزات اور عبداللہ جان جمالدینی کی خاصیت ہوا کرتی تھی کہ وہ شاعروں کو ڈھونڈ نکالتے تھے۔ اس زمانے میں رابطے کا فقدان ہوتا تھا جب بھی کسی شاعر کی شاعری سامنے آتی تو اسے ڈھونڈ نکالنے کے لئے رخت سفر ہوتے تھے۔ کیا کمال کے انسان تھے۔ یہی وجہ تھی میر آدم حقانی کا ان سے گہرا لگاؤ تھا بلکہ ماہتاک بلوچی کے ساتھ انکی فکری وابستگی ہو گئی تھی۔ ماہتاک بلوچی کے علاوہ انکی شاعری ماہتاک اولس میں وقتاً فوقتاً شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ واجہ امان اللہ گچکی کی سرپرستی میں جاری ہوتا تھا۔ دونوں ماہتاک کا بلوچی زبان و ادب کے لئے بہت بڑا رول ہوا کرتا تھا۔ تحقیق، شاعری اور انٹریوز کا بیش قیمت مواد شائع ہوا کرتے تھے۔ غالباً اولس کہیں نظر نہیں آتا پر ماہتاک بلوچی آج بھی جاری ہے۔
1994کو یعنی میر آدم حقانی کی وفات کے 8 سال بعد پشتو کے معروف ادیب و دانشور اور اْس وقت کے ڈپٹی کمشنر آواران عبدالکریم بریالے کو نہ جانے یہ خیال کیسے آیا کہ اس نے میر آدم حقانی پر 4 روزہ تقریب کا انعقاد آواران میں ہی کروایا۔ اس پروگرام کا مقصد میر آدم حقانی کو خراج عقیدت پیش کرنا اور انکی شاعری کو زندہ کرنا تھا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی، غوث بخش صابر، نادر قمبرانی، غنی پرواز، قاضی عبدالحمید شیرزاد، مبارک قاضی، کریم آزات، الفت نسیم، قیوم بیدار، عبیداللہ شاد اور بڑے بڑے نامی گرامی شاعر و ادیبوں نے شرکت کی۔ آدم حقانی کی خدمات کو سراہا۔ اسی پروگرام کے حوالے سے غوث بخش صابر (جو کہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے) نے مئی 1994 کے ماہتاک بلوچی میں شائع ہونے والے رپورٹ میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے جس میں وہ آدم حقانی کی ادبی خدمات کے حوالے سے وہ لکھتا ہے ’’ میر آدم حقانی پر ہونے والا یہ پروگرام اسکی عظمت کو ظاہر کرتا ہے جس پروگرام کے لئے بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، براہوئی اکیڈمی کوئٹہ، بلوچستان اکیڈمی کوئٹہ، عزت اکیڈمی پنجگور، رابعہ خضداری اکیڈمی سے آئے ہوئے بڑے بڑے ادیب و دانشور اور شاعروں نے شرکت کی‘‘۔جب میں نے اس پروگرام کے منتظم و 13 کتابوں کے مصنف عبدالکریم بریالے سے جاننا چاہی تو انکا کہنا تھا ’’میں نے جب آدم حقانی کے کتاب درون کا مطالعہ کیا تو اس کتاب نے مجھے اسکے حوالے سے ایک نئی فکر بخشی کہ مجھے اسکی زندگی اور شاعری پر پروگرام کرنا ہے تو میں نے پروگرام کا انعقاد کروایا۔ 1994کو جب ہم نے میر آدم حقانی پر پروگرام رکھاتو اس پروگرام کا خاص مقصد میر آدم حقانی کی خدمات لوگوں کے سامنے پیش کرنا تھا۔ اس پروگرام میں مختلف علاقوں کوئٹہ، خضدار، مستونگ، آواران، خاران، تربت، پنجگور، تمپ، گوادر، پسنی، اورماڑہ، کراچی، اسلام آباد اور دیگر علاقوں کے 100سے زائد ادیب و دانشور اور شاعروں نے شرکت کی تھی جبکہ شرکاء کی تعداد 3500سے زائد تھی۔‘‘۔انھیں اس بات کا افسوس ہے کہ آدم حقانی پر رکھے گئے پروگرام کی ریکارڈنگ محفوظ نہیں ہو سکی البتہ انکے پاس رکھی گئی پرانی کیسٹ سے ان ریکارڈ کو دوبارہ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
آدم حقانی کی شاعری ماہتاک بلوچی اور اولس میں وقتا فوقتا شائع ہوتی رہی انکی زندگی میں ہی آزات اکیڈمی کراچی نے اسکی پہلی اور آخری شعری مجموعہ ’’ درون‘‘ کو کتابی شکل میں دے کر کیا۔ جو اب نایاب ہو چکی ہے۔چاہیے کہ اسکی دوبارہ اشاعت کرکے میر آدم حقانی کی شاعری کو دوبارہ زندہ کیا جائے ۔ محمداکبر عمرانی خود بھی بلوچی زبان کے شاعر ہیں انہوں نے آدم حقانی کی شاعری کا بغور جائزہ لیا ہے۔آدم حقانی کی شاعری کے حوالے سے انکا کہنا ہے ’’ میر آدم حقانی کی شاعری انگریزوں کے دور میں انگریزوں کی جابرانہ حاکمیت کے خلاف، سرداروں نوابوں کی مظلوم کسانوں کے ساتھ رواں رکھی گئی ظلم و زیادتی اور استحصال کے خلاف تھا۔ وہ اپنی شاعری میں اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ جو استحصال ہورہا ہے وہ سردار اور نواب کروا رہے ہیں غریبو اٹھو۔ اسکے خلاف ہم آواز ہو جاؤ۔ آخری دور میں اس نے بزگروں کے خلاف بھی شاعری کہے جنہوں نے مالکوں کو انکے حقوق سے محروم کر دیا تھا یعنی انہوں نے ہر دور میں ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔میر آدم حقانی کی وفات پر میر غوث بخش بزنجو نے کہا تھا کہ ’’جھاؤ ایک عظیم شخص سے محروم ہو گیا‘‘۔
میر آدم حقانی نے 1000سے زائد بلوچی شعر لکھے جبکہ انکی فارسی اور اردو میں لکھی گئی شاعری 400سے زائد بتائے جاتے ہیں انکی لکھی گئی فارسی اور بلوچی شاعری ریڈیو زاہدان اور ریڈیو پاکستان پر نشر ہوا کرتے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں شاعری کہاں گئی۔ انکے ایک بیٹے عبدالقادر حقانی کہتے ہیں کہ جب عبدالکریم بریالے نے میر آدم حقانی پر پروگرام رکھی تو پروگرام کے بعد وہ سیدھا ہمارے گھر ’’لال بازار جھاؤ‘‘ تشریف لائے اور وہ ہم سے میر آدم حقانی کی لکھی گئی 11رجسٹرز اس شرط پر لے کر گئے کہ وہ انکی چھپائی کریں گے۔لیکن وہ چھاپ نہ سکے۔ جب راقم نے اس حوالے سے عبدالکریم بریالے سے پوچھا۔ تو انہوں نے اس بات کی نفی کی ۔انکا کہنا ہے کہ انہیں صرف ایک رجسٹر ملی تھی جسکی چھپائی کسی بندے کے زمہ داری لگائی تھی وہ اب تک اس زمہ داری کو نہ نبھا سکے لیکن جن 11رجسٹرز کی بات انکے بیٹے نے کی ہے اس میں کوئی صداقت نہیں۔
میر آدم حقانی کا خضدار میں اکثر و بیشتر آنا ہوتا تھا۔ خضدار کے لوگوں کے حوالے سے انکی خاص دل لگی ہوتی تھی۔ اور میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ انکی سیاسی وابستگی تھی۔ وہ میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ نشستوں میں شریک ہوتے تھے اور اسکی جماعت کے ممبر بھی تھے۔ ادیب و شاعر اور قانون گو عبدالحمید شیرزاد پرانی یادداشتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ آدم حقانی کی ظہور شاہ ہاشمی، رحیم فضل آزاد، یوسف نسکندی کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ جب وہ خضدار آتے تو بابو خیرجان کے گھر ٹھہرجاتے تھے۔ جہاں مشاعرے کا اہتمام ہوتا تھا۔ریڈیو پاکستان کے لئے ان مشاعروں کی ریکارڈنگ ہوا کرتے تھے۔ وہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن بھی تھے۔ جب انکے ساتھ مجالس لگتے تھے تو انکی باتوں اور شاعری میں مٹھاس ہوا کرتا تھا‘‘ عبدالکریم شیرزاد انکی کہی گئی شاعری جو میر آدم حقانی نے غوث بخش بزنجو کے لئے لکھی تھی وہ یوں بیان کرتے ہیں۔
بیاء کہ بیا ہاتے من ترا مہمان کنیں
چاندی ئے زراں تئی راہ ء تالاں کنیں
بستگیں شیراں شکر ماں کنیں
گل سہریں پھلاں تئی راہاں ریچاں کنیں۔
بقول عبدالحمید شیرزاد کے کہ وہ اس شعر میں میر غوث بزنجو کو واپس جھاؤ میں بس جانے کا کہتا ہے جہاں وہ اپنی زمینوں کو چھوڑ کر نال آباد ہوا تھا اسکی خواہش تھی کہ میر غوث بخش بزنجو دوبارہ جھاؤ آکر آباد ہوجائے ۔
پروم پنجگور کے رہنے والے عبدالحق حقانی سے انکی دوستی گہری تھی۔ عبدالحق حقانی کے بیٹے عارف اسلام کے مطابق انکے والد کا آدم حقانی کے ہاں جھاؤ اکثر جانا ہوتا تھا اور انکی روابط کا ذریعہ شعر و شاعری ہوا کرتا تھا۔
عبدالرحیم حقانی انکے بڑے بیٹے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر والد کے ساتھ ہوتے تھے پر شاعری کے ساتھ انکا لگاؤ نہیں رہا۔ میر آدم حقانی کی شاعری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ’’ جب حکومت کی جانب سے کوئٹہ میں بلوچی شعری و شاعری مقابلے کا اہتمام کیا گیا تو اس مشاعرے میں نامی گرامی شاعر شریک تھے۔ گل خان نصیرنے پہلی جبکہ میر آدم حقانی نے دوسری پوزیشن حاصل کی‘‘۔ انکا گلہ ہے کہ انکے والد کی شاعری کو فراموش کیا گیا۔
میر آدم حقانی کی حالات زندگی اور شاعری پر مختلف اوقات میں مختلف رسائل اور کتابوں میں مضامین شامل کئے گئے ہیں ماہتاک نوکیں راہ میں معروف ادیب غنی پرواز ’’ آدم حقانی ءِ شاعری‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے۔ آدم حقانی کی شاعری میں انقلاب، قوم دوستی،زبان دوستی، مظلوموں و کسانوں کی آواز شامل تھی۔ اسکی شاعری میں انقلاب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ شاعری میں انقلاب کے تمام لوازمات سے واقف تھے اور انہوں نے اپنی شاعری کو اسی میں ڈھل دیا تھا۔
اپنی ایک شاعری میں وہ کہتا ہے
امیرا دولت دنیائے باز نزآرگا دمبرت
غریبا خوارئے بازیں غم افارگ دمبرت
امیرا چہ وردناں بازیں چو گامیشے دڑانزہنت
غریبا لنکوءِ حشکیں پہ شام سوارگا دمبرت
بزگروں کی حالت پر وہ اپنی شاعری میں کہتے ہیں
من بزگروں کار کنیں
گژنا چہ گین سار کنین
من کاروکردار کنین
جانا وتی خوار کنیں
سیاھیں شپاں سارکنین
جوہاناں قطار کنیں
میر آدم حقانی کی شاعری میں وقت و حالات کی داستانیں قلمبند ہیں بلوچستان کے لاچار و غریب اور مظلوم و محکوم عوام کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جو حالت بیسویں صدی کے تھے ان حالات سے آج کا بلوچ دوچار ہے۔ہماری کوشش تھی کہ واجہ عبداللہ جان جمالدینی سے میر آدم حقانی کی شاعری کے بارے میں معلومات لیا جا سکے پر انکی صحت اور زبان نے ہمیں معلومات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی۔ میر آدم حقانی کا جنم دوبارہ تو نہیں ہوگاالبتہ ایک کام کیا جا سکتا ہے کہ اسکی گمشدہ شاعری کو ڈھونڈا اور محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں جہاں اسکی تاریخ کو شاعری کے ذریعے رقم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہیں آدم حقانی کی شاعری کو محفوظ کرکے خدمت کے طور لیا جا سکتا ہے۔