’’تم نے وہ نوکری کیوں کی؟ ‘‘
میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے اس کی طرف دھندلی نگاہوں سے دیکھا جس کا چہرہ پورے چاند کی طرح چمکتا اور آنکھیں روشن ہوتی تھیں۔ اس کے چوڑے کندھوں پر سفید کرتا کسا ہوتا تھا۔ ماتھے پر پگڑی اور پیروں میں تلے والا کھسہ اسے مزید خوبرو بناتا تھا۔ وہ لسی پیتا تھا ۔ مکھن کھاتا تھا۔ ابے کے حقے میں سے کبھی کبھار چوری چوری کش لگاتا اور کھانستا تھا۔ وہ جوہمیشہ قابل رشک تھا اور جس سے مجھے ایک انجانی جلن بھی ہوتی تھی ، آج میرے سامنے کالی چائے پی رہا تھا۔ اس کی نوکیلے کناروں والی مونچھوں پرشرارت ہر وقت کھیلتی تھی ، گالوں سے زندگی چھلکتی تھی اور ہونٹوں سے ہنسی پھوٹتی تھی۔ آج صدیوں کا بیمار دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے چائے کا خالی کپ ایک طرف رکھتے ہوئے میری طرف دیکھا اور اس کے لب ہلے مگر آواز نہیں آئی ۔ اس نے دوبارہ کوشش کی تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید اس نے کہا ہے ۔
’’میں دھرتی ماں کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’تو پھر چھوڑی کیوں؟ ‘‘
’’ایک عمارت کے باہر کھڑا رہ رہ کر تھک گیا تھا۔‘‘ اس کے کالے ہونٹوں میں سے نکوٹین چڑھے دانتوں نے جھانکااور ایک تھکان میں ڈوبی آواز بمشکل میرے کانوں تک پہنچی جو مجھے بھی اس گہرائی میں لے گئی جہاں سے آئی تھی کہ میں بھی ویسا ہی ہوں۔۔۔ ایک عمارت کے باہر کھڑا آدمی۔۔۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو اور بھی کئی کھڑے تھے۔ کوئی ایک منزلہ عمارت کے دروازے پر تھا اور کسی کو دومنزلہ پر دیکھا۔۔۔ سہ منزلہ۔۔ چو منزلہ۔۔پنچ منزلہ۔۔۔ منزل پر منزل۔۔۔ عمارتیں ہی عمارتیں۔۔۔آدمی ہی آدمی۔۔۔ باہر کھڑے ۔۔۔ اندر بیٹھے۔۔۔ اوپر جمے۔۔۔ نیچے دبے۔۔۔میں گھبرا گیا اور لوٹ آیا تو دیکھا کہ وہ سگریٹ سلگا چکا ہے اور لمبے لمبے کش لے رہا ہے۔ نجانے کب سے پھونک رہا تھا کہ ارد گرد دھوئیں نے ہالہ بنا ڈالا اور جو پہلے ہی دھندلا نظر آ رہا تھا ، اب دکھائی دینا اور بھی مشکل ہو گیا۔ اگر وہ ہاتھ بڑھا کر میرے کندھے پر نہ رکھتا تو میں اسے پوری طرح کھو دیتا۔ اس کے دستِ مشقت سے میری ڈھارس بندھی ۔ سانس میں سانس آئی اور میں نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا۔
اب کیا ارادہ ہے؟
’’بچوں کو پڑھاؤں گا۔ کھیتوں میں ہل چلاؤں گا یا ۔۔۔ ‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا، سوچ میں پڑ گیا اور لحظہ بھر اپنی انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کر بھینچ کر زورِ بازو جانچنے کے بعد ٹھوڑی کھجاتے ہوئے بولا ، ’’ یا کچھ ایسا ہی کروں گاجو زندگی زیادہ برباد نہ کرے ۔ ‘‘ اس کی تاریک آنکھوں میں روشنی ابھری اور میرے پچکے گالوں میں ایسی حرکت ہوئی جیسی مسکرانے پر ہوتی ہے۔ میرے زرد دانتوں کو چھوتے ہوئے زبان باہر آئی اور کالے ہونٹ تر کرکے لوٹ گئی۔ میرے دل میں اک لہر اٹھی جو حروف میں ڈھلی اور میرے لب آزاد کر گئی مگر اس نے دائیں ہاتھ سے اپنے کان کی لو نیچے سے پکڑ کر اشارہ دیا کہ اونچی بولو۔۔۔ کچھ سنائی نہیں دیا۔ میں نے نیلگوں آسمان کو ڈھانپتی کالی گھٹاؤں کو دیکھتے ہوئے ظاہر کیا کہ سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں لیکن اس نے بایاں کان پکڑ کر وہی عمل دہرایا کہ بولو۔۔۔ سجھاؤ دو۔ ۔۔ مگر میں کچھ نہ بول پایا اور وہ وقت کی گرد جھاڑتے ہوئے چلا گیا۔
یہ میری اور اس کی آخری ملاقات تھی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے