’’دنیا کے مزدورو‘ ایک ہو جاؤ‘ ‘۔۔۔یہ شاید دنیا کا اب تک سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نعرہ ہے۔ وہ نعرہ جو ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ نامی مختصر کتابچے کی پیشانی پہ جگمگا رہا ہے۔ وہ مینی فیسٹو جس کا آغاز اس مشہورِ زمانہ فقرے سے ہوتا ہے کہ،’’یورپ کے سر پرایک بھوت منڈلا رہا ہے؛ کمیونزم کا بھوت۔‘‘اس مختصر پمفلٹ کے اس فقرے کو اس سال فروری میں 168سال مکمل ہو گئے، یورپ آج بھی اس بھوت سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔اپنی تخلیق(1848ء) کی انیسویں صدی میں دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا یہ مختصر کتابچہ اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو کردنیا کے کروڑوں انسانوں کی رہنمائی کا سنگِ میل رہا ہے۔ اس کا تازہ و آخری ترجمہ بلوچی زبان میں ابھی دو سال پہلے، بلوچستان میں ہوا۔ حالاں کہ یہ خطہ اس کتاب کے اولین ترجمے کا حق دار تھا۔اس لیے کہ اس خطے میں سیاست کی بنیاد ہی اسی کتاب سے پڑی۔ جدید سیاست کا ہمارا امام یوسف عزیز مگسی سام راج مخالف جدوجہد کی پاداش میں جلاوطن ہو کراُس کی جائے پیدائش(لندن) پہنچا تھا، تو اس کا سامنا مینی فیسٹو کے اصل ماخذ سے ہوا۔ جو اس کے مطالعے میں کہاں جگہ پاتا تھا، اس کا اظہار اُس نے اپنے دوست کے نام خط میں یوں کیا کہ،’’ان دنوں میرے سرہانے دو کتابیں دھری رہتی ہیں؛ ایک طرف ’دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دن‘، دوسری طرف ’داس کیپٹل‘!‘‘ اور پھر اُس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش بلوچ ان دونوں کتابوں کو اپنے مطالعے کا لازمی حصہ بنا لیں۔۔۔۔۔۔ المیہ ملاحظہ ہوکہ،وہ دھرتی جس کے اکابرین نے کمیونسٹ مینی فیسٹو نامی مختصر کتابچے کو اپنی سیاست کا سنگِ میل بنایا، وہاں کے ایک گروہ آج بھی اس بات پہ مصر ہے کہ بلوچستان میں طبقات کا کوئی وجود ہی نہیں۔ سرداروں ، جاگیرداروں ، مڈل کلاسیوں کی دھرتی پہ یہ دعویٰ مضحکہ خیزی کے ساتھ ہمارے سیاسی شعور کا منہ چڑانے کو کافی ہے۔ اس دعوے داری میں محض نظریات کے سراب کے پیچھے جوانیاں گنوانے والے سفید ریش سیاسی کارکن ہی نہیں، تجربات کی بھٹی میں بال سفید کرنے والے اہلِ دانش بھی شامل ہیں، جنھیں بجا طور پر جاگیرداروں کا’ فکری باڈی گارڈ‘ ہونے کا طعنہ ودیعت ہوا۔جاگیرداروں کے بلوچستان میں ‘طبقات سے انکار، ان جاگیرداروں کو فکری ایندھن میسر کرنا ہی تو ہے ۔ جیسے آمر خواہ کسی بھی پردے میں چھپ کر آئے، وہ اپنی آمرانہ فطرت پہ قابو نہیں پا سکتا، اسی طرح جاگیردارکے فکری باڈی گارڈ خواہ انھیں کوئی بھی چولا پہنا دیں، وہ اپنی فطرت میں استحصالی اورعوام دشمن ہی رہتا ہے۔
بلوچستان میں طبقات سے انکاری لوگوں کو جاگیرداری کے شکنجے میں جکڑے لاکھوں مزدور کسانوں والے نصیرآباد کی مثال دیں تو جھٹ سے کہیں گے صرف مشرقی حصہ ہی بلوچستان نہیں۔ ماہی گیروں کی مثال لائیں توانھیں صرف مکران کے ساحلوں تک محدودبتائیں گے، صنعتی مزدوروں کا ذکر کریں تو انھیں صرف حب و بیلہ تک محدود کر دیں گے، بلوچستان کے ہر شہر ہر قصبے میں موجود بوٹ پالش کرنے والے، ریڑھی بانوں،ڈاکیوں، کلرکوں کا نام لیں تو ایک طویل وقفے سے جواب آئے گا، ’یہ طبقات کی کلاسیکل تعریف میں نہیں آتے۔۔۔‘ پھر ’بلوچستان میں طبقات اُس طرح سے واضح نہیں۔۔۔‘
یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ایشیا میں سب سے زیادہ جاگیریں رکھنے والے جاگیردار بستے ہیں، جہاں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کا مالک جاگیردار بستا ہے، جہاں دنیا کے ٹاپ ٹین اسمگلر کی فہرست میں جگہ پانے والا کھرب پتی اسمگلر موجود ہے، جہاں سردار‘ سردار کے مفاد میں اپوزیشن کی سیاست ہی ترک کر دیتا ہے۔ جہاں پاکستان میں عوام کی ازلی و ابدی دشمن مقتدرر قوتیں انھی عوام دشمن سرداروں کو پالتی پوستی ہیں، جب چاہیں اپنی ضرورت کے تحت انھیں ہیرو بنا دیں، جب چاہیں انھیں ولن دکھا دیں۔
وہی بلوچستان جہاں اپنے مخالف جاگیرداروں کو سبق سکھانے کے لیے بھٹو کی زرعی اصلاحات کے خلاف سبھی جاگیردار اِن زمینوں کو آباد کرنے والے ہاریوں کے خلاف یک جا ہو گئے۔ ہاری جس زمین کو اپنے پسینے سے سیراب کرتے تھے، جاگیرداروں نے اس زمین کو انھی کے خون سے سیراب کر دیا۔ جس کے بطن سے خونی پٹ فیڈر تحریک نے جنم لیا۔
وہ بلوچستان جہاں مزدوروں، کلرکوں پر مشتمل ایسی منظم و مضبوط ٹریڈ یونین نے جنم لیا کہ اس سے خوف زدہ ہو کر،اسے توڑنے کے لیے مقتدرہ نے اس میں مافیاز بھرتی کر دیے۔ انھیں اس قدر بدنام بنا دیا گیا کہ آج ٹریڈ یونین کرپٹ نوکر شاہی اور کرپٹ ترین حکم رانوں کا حصہ بن چکی ہیں۔
ماہی گیر مزدوروں کے مسائل دبا دیے گئے۔ باقی جاگیرداروں کے باڈی گاڈ بننے والے، ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے تو ایک ’قومی فریضہ‘ سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔تو یوں بلوچستان میں نہ کوئی طبقہ رہا، نہ کوئی طبقہ نواز۔ تو یہاں طبقاتی جدوجہد کا سوال ہی غیرمتعلق ٹھہرا۔
طبقاتی جدوجہد کی سیاست بلوچستان میں ایک عرصے سے ناپید ٹھہری۔ صرف بلوچستان ہی کیا، پورے پاکستان سے لے کر ایران ، افغانستان، ہندوستان تک آج طبقاتی جدوجہد، مزدور کسان سیاست کا نام و ہی نشان ہی نظر نہیں آتا۔ کمیونزم کے بھوت سے نمٹنے کے لیے یورپ اور سرمایہ داری کے سردار امریکہ نے دہشت گردی کا ایسا ہوا کھڑا کیا کہ گذشتہ بیس برسوں سے اس خطے میں یوں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے سوا اور کوئی سماجی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ان سوالوں کی کثرت سے عوام اگر بے زار ہو تو سیکولر ازم ، لبرم ازم کا تڑکا لگائیے اور بھوک اور فاقوں کے مسائل بھول جائیے۔ان ریاستوں کے نصاب سے لے کر، ان کا کارپوریٹ میڈیا تک مزدور، کسان ، ہاری اور نچلے طبقات کو یوں حاشیے پر ڈال چکا کہ لگتا ہے جیسے سماج میں ان کا وجود ہی ناپید ہو چکا ہو۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے