چار کروڑ ستر لاکھ  سال قبل کا بلوچستان
جدید دور کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ بلوچستان کا علاقہ قدیم دور میں خشک اور بنجر نہ تھا ۔ بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں اور بلوچستان کے پہاڑ اور میدان جنگلات سے بھرے ہوئے تھے جن میں مختلف قسم کے جانوروں کی بہتات تھی (1)۔اس دور کو’’Wet era‘‘ (گیلا دور) کہا جاتا ہے ۔ جیالوجیکل اور آرکیالوجیکل شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بارانی عہد ابھی حال میں آٹھ دس ہزار سال قبل ختم ہو گیا۔ اور اس کے بعد ’’ خشک دور‘‘ شروع ہوا۔
بلوچستان حیوانی زندگی کے ارتقاء کا میدان رہا ہے ۔ گو کہ ابھی تک اس ارتقاء کے کچھ گم شدہ مراحل کو دریافت کرنا باقی ہے مگر اب تک تو یہی لگتا ہے کہ یہیں پہ ہے سب کچھ ۔ اب بلوچ اور بلوچستان کی تاریخ پر لکھنے والے قلمکار کو صرف بلوچ کی تاریخ لکھنی نہیں پڑے گی کہ فلاں قبیلہ اصلی ہے فلاں کم اصل۔ فلاں فرقہ لوکل ہے فلاں نان لوکل۔ بلکہ اب اُسے پوری کائناتی حیات ( بیکٹیریا سے لے کر انسان تک) کی تاریخ بیان کرنی پڑے گی ۔ اس لئے کہ گذشتہ دو تین دہائیوں سے جو نئی نئی سائنسی دریافتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں انہوں نے سمتیں ہی بدل ڈالی ہیں ۔ شاید ایک سیل والے معمولی جاندار سے لے کر اشرف المخلوقات انسان تک سب کچھ بلوچستانی ہیں ۔ یہیں وہ پیدا ہوئے اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے انسان تک آن پہنچے ۔ بلوچستان آبِ حیات ہے‘ مقامِ حیات ہے ۔ ساری زندہ مخلوق یہیں کی ہے ۔
بارکھان کی وھیل مچھلی
(روڈھوسی ٹس بلوچستانی سس)
میں جب بلوچستان کے دانشوروں سے بلوچی تھیریم اور مہر گڑھ کے زمانے کے درمیان کے عرصے والے بلوچستان کے بارے میں زبردست بحث و مباحثے میں مصروف تھا تو ڈاکٹر غلام محمد کھیتران سے بھی اس کا تذکرہ ہوا ۔ اس نے غیر متوقع طور پر ایک ایسی بات کہہ دی جس سے میں اچھل پڑا ۔ اس نے کہا کہ میرے علاقے(بارکھان) میں ایک حاملہ وہیل مچھلی کے فاسلز دریافت ہوئے ہیں جو پانچ کروڑ سال پرانے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ جس امریکی سائنس دان نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے اُس سے اُس کی دوستی ہے ، ای میل سے رابطہ ہے۔ اور جس بین الاقوامی طور پر مستند سائنسی جریدے میں اُس کا آرٹیکل چھپا ہے اس کی فوٹو کاپی بھی اس کے دوست نے انہیں بھیج رکھی ہے ۔
اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے وہ آرٹیکل مجھے پہنچا دی ۔ جس تحقیقی انٹرنیشنل جریدے میں وہ مضمون شائع ہوا تھا اس کا نام ’’سائنس ‘‘ ہے ۔ میں نے انٹرنیٹ پہ اسے ڈھونڈا تو وہ رسالہ مجھے مل گیا ۔ 2001 کے 21ستمبر کے شمارے میں اُس دریافت کی تفصیل بیان تھی۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر فلپ گِنجرِخ ، اُس کے ایک ساتھی لیاد زلماؤٹ اور جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے محققوں اور نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے سکالروں نے مل کر کی ۔ رسالے کے سرورق پہ مشی گن یونیورسٹی کے ایک آرٹسٹ کی اس مچھلی کی بنائی پینٹنگ چھپی ہوئی ہے جس میں یہ نیلگوں سمندر سے خشکی کی طرف قدم رنجہ فرما رہی ہے ۔ میں نے چارلس ڈارون کو مخاطب کر کے سارا مضمون زور زور سے اُن کی روح کو سنایا ۔میں نے تصور میں اس کے سر کو فخر سے بلند ہوتے دیکھا ۔
سبق:سائنسی کام کرتے وقت بہت سارے لوگوں سے اِس کا ذکر کرنا چاہیے ۔کیا پتہ کون کس وقت کار آمد مدد دے ؟۔
یہ وہیل خشکی کا ممالیہ جانور تھا ۔ یہ پیروں پر چلتا تھا ۔ بارکھان میں اِس کی مادہ ملی۔اور یہ خشکی پہ ملی۔ یہیں پہ وہ حاملہ ہوتی تھی اور یہیں وہ بچے دیتی تھی ۔ اس کا خشکی سے سمندر میں جا بسنے کا سارا ارتقائی زمانہ ہمیں اِس دریافت نے بتادیا ہے ۔
یہ ابتداء میں چار ٹانگوں والا جانور تھا جوکہیں جاکر پانچ کروڑ سال قبل مکمل طور پر سمندری جانور بن گیا ۔ اور پھر رفتہ رفتہ اس نے ٹانگوں سے نجات حاصل کر لی ۔ جو فاسلز بارکھان میں ملے اُن میں سے اُس کی ٹانگیں باقاعدہ طور پر موجود ہیں ۔ ان ٹانگوں کو وہ سمندر سے نکل کر خشکی میں زندگی گزارنے میں بروئے کار لاتا تھا ۔اُس کی باقاعدہ انگلیاں تھیں ، انگوٹھے تھے ۔ اب سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ وھیل مچھلی دراصل بھیڑ ، گائے ، سور ، اونٹ ، ہرن اور دریائی گھوڑا کے خاندان سے ہیں ۔(2)
روڈھوسی ٹس بلوچستانی سس(Rodhocetus Balochistanesis) نامی فاسل شدہ وہیل کے جزوی ڈھانچے ابھی تک دریافت کردہ وہیل میں قدیم ترین ہیں۔47ملین سال قبل کے یہ جانور مشرقی بلوچستان کے علاقے رکھنی میں لاکھا کچ لوھما میں ’’کِن وت‘‘ کے مقام پر ملے۔(3)
اس دریافت کے بڑے سائنس دان نے بتایا کہ سب سے پہلے ہمیں چھوٹے دانت نظر آئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید یہ ایک چھوٹا بالغ وھیل ہے مگر پھر ہم نے کھدائی جاری رکھی اور ہمیں پسلیاں ملیں جو ان دانتوں کی نسبت بڑے جانور کی تھیں ۔ دن کے آخر میں اندازہ ہوا کہ ہم نے ایک مادہ حاملہ وھیل اور اس کے پیٹ میں بچہ دیکھا ہے ۔ بچے کی پوزیشن پہلے سر پیدا ہونے والی تھی جو کہ زمینی ممالیوں کی خصوصیت ہوتی ہے ۔ جبکہ ہمارا سمندری جدید وھیل اس سے الٹ پوزیشن میں پیدا ہوتا ہے ۔
مذکورہ وہیل نے جب چاہا سمندر میں پیراکی فرمائی ۔ اور جب چاہا خشکی پہ آ کر بچے دیئے ۔جہاں ننھے بچوں کو نہ ڈوبنے کا خطرہ ہوتا نہ دیگر جانوروں بالخصوص شارک مچھلیوں کی خوراک بننے کا ڈر ۔یہ وھیل خشکی پر بہت لمبا فاصلہ طے نہیں کر سکتا تھا ۔ یہ گویا ساحل کے ساتھ ہی بندھے تھے ۔ یہ خشکی اور سمندر کے سنگم پہ رہتے تھے اور آگے پیچھے جاتے تھے ۔ خشکی میں سمندر کی لہروں سے آئی مردہ مچھلیاں اس کی خوراک کا کام دیتی تھیں ۔ جی ہاں ، وہیل مردار خانور جانور ہوا کرتا تھا (Scavenger)۔بلوچستان کے اس وھیل کی دریافت نے سائنس کا بڑا مسئلہ حل کر دیا کہ کس طرح یہ خشکی کا جانور بالآخر سمندری بن گیا ۔
ایک ویب سائٹ نے ذکر کیا کہ جب یہ فاسل دریافت ہوا تو مشی گن یونیورسٹی کے ماہر فلپ گنجیرخ ایک،بالغ اورایک بچے کی ہڈیوں کے گڈ مڈ سے ہکا بکارہ گیا۔واضح رہے کہ اس پورے پراجیکٹ کی فنڈنگ بہت ہی معتبر ادارے نیشنل جیو گرافک سوسائٹی نے کی تھی ۔
وہیل سمندری ممالیہ جانور ہیں۔جبکہ زیادہ تر ممالیہ خشکی پر رہتے ہیں اور ابتدائی ممالیوں کا فاسل ریکارڈ زمینی باشندگی کاہے۔ لہٰذا بہت عرصے سے یہ اخذ کیا گیا کہ وہیلوں کی ابتدا میں زمین سے سمندر کی طرف ارتقائی ڈھلنا شامل ہے۔ یہ بہت زیادہ علم بھری تبدیلیوں میں سے ایک ہے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے