گیبریئل گارسیا مارکیز
گیبریئل گارسیا مارکیز 6 مارچ 1927کو کولمبیا میں پیدا ہوئے اور انکی وفات 17 اپریل 2014 میں ہوئی۔وہ ہسپانوی زبان کا بے مثل ادیب ہے جسے بحثییث ناول و افسانہ نگار, صحافی اور سکرین پلے رائٹر عالمی شہرت حاصل ہوئی۔17 اپریل2016 کو گیبریئل گاسیا مارکیز کی وفات کو دو سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں انکے کروڑوں مداحوں نے اسے شاندارخراج عقیدت پیش کیا۔
ادب سے مارکیز کی دلچسپی زمانہ طالب علمی میں ہوئی جب وہ بگوٹا میں سیکنڈی سکول میں پڑھتا تھا۔انہوں نے 1947 میں بگوٹا کی نیشنل یونیورسٹی میں قانون پڑھنے میں داخلہ لیا۔مارکیز کہتا ہے کہ قانون کی پڑھائی میں ان کا دل نہیں لگتا تھا اکثر وہ کلاس کی بوریت سے بچنے کیلئے شاعرانہ نثر پارے لکھتا تھا۔ان کے بقول جب پہلی بار انکی لکھی ہوئی کہانی اخبار میں شائع ہوئی تو ان کے پاس اخبار خریدنے کیلئے پانچ سینٹو بھی نہیں تھا۔یہ میری غربت کا بین ثبوت تھا۔
آخر کار 1948 میں اس نے قانون کی پڑھائی چھوڑ دی اور صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔’’ تنہائی کے سو برس” کی بے پناہ مقبولیت کے بعد مارکیز کو 1982میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔
مارکیز ہمیشہ کہتا تھا کہ انسانیت کا مستقبل سوشلزم سے وابسطہ ہے۔1955 میں وہ کمیونیسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا مگر ادب اور سیاست کے تعلق پر پارٹی کے موقف سے اختلاف کے باعث اس نے پارٹی چھوڑ دی۔1972 میں مارکیز نے رومیو یوگا لیگوس انعام حاصل کیا اور اس نے ساری انعامی رقم ایک سابق گوریلا تنظیم ایم۔ اے۔ ایس سوشلزم کیلئے تحریک کو عطیہ کر دی۔1980 کے اوئل میں کولمبیا کی حکومت اور بائیں بازو کے گوریلوں میں مصالحت کرانے کیلئے وہاں بڑے پیمانے پر جاری تشدد کی وجہ سے وہ کولمبیا واپس نہیں گیا۔
مارکیز اپنے زندگی کے آخری دنوں میں جب کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھا۔ تو وہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے انٹرنیٹ پر دیئے گئے اپنے الوداعی پیغام ’’اپنی نفرت کو برف پر لکھو میں کہتا ہے کہ ‘‘اگر خدا مجھے دوبارہ زندگی دے تومیں جو کچھ سوچتا ہوں,اسے کہنے کے بجائے جو کچھ کہتا ہوں, اس کے بارے میں سوچوں گا۔میں چیزوں کی قدر ان کی قیمت سے نہیں بلکہ ان کے با معنی ہونے کی وجہ سے کروں گا۔ میں کم سوؤں گا اور جاگتے میں خواب دیکھوں گا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ ہر اس منٹ جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں،ہم پورے ساٹھ سیکنڈ کے لیے روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں۔جب دوسرے رک جائیں گے میں چلتا رہوں گا۔جب دوسرے سوئیں گے میں جاگوں گا۔جب دوسرے بولیں گے میں سنوں گا۔میں اچھی اچھی چاکلیٹ کھاؤں گا۔ اگر خدا مجھے دوبارہ زندگی دے تو میں اچھے اچھے کپڑے پہنوں گا۔دھوپ تاپوں گا۔ فقط اپنے جسم کے لیے نہیں اپنی روح تک اس کی تپش پہنچاؤں گا۔اے خدا! اگر میں دل گرفتہ ہوں گا تو اپنی نفرت کو برف پر لکھوں گا اور سورج نکلنے کا انتظار کروں گا تاکہ برف کے ساتھ میری نفرت بھی پگھل کر بہہ جائے۔میں وین گاگ کی طرح ستاروں پر نظمیں لکھوں گا اور چاند کے لیے محبت کے گیت گاؤں گا۔ میں اپنے آنسوؤں سے گلابوں کو سیراب کروں گا اور کانٹوں کا درد اور گلابی پنکھڑیوں کا لمس محسوس کروگا۔ اے میرے خدا! مجھے دوبارہ زندگی ملے تو کوئی دن ایسا نہیں گزاروں گا جب لوگوں کو یہ پیغام نہیں دوں گا کہ مجھے ان سے پیار ہے۔ میں ہر مرداورعورت کو بتاؤں گا کہ وہ مجھے محبوب ہیں۔ میں پیار سے پیار کرو ں گا۔ میں لوگوں کو بتاؤں گا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تومحبت نہیں کر سکتے۔ انہیں نہیں معلوم کہ جب وہ محبت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ میں بچوں کو پر پرواز دو گا,لیکن انہیں خود اڑنے کی کوشش کرنے دوگا۔ میں بوڑھوں کو بتا?ں گا کہ موت بڑھاپے سے نہیں آتی بلکہ یہ سب کچھ بھول جانے سے آتی ہے۔ اے انسان! میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ہر کوئی پہاڑ کی چوٹی پر رہنا چاہتا ہے اور یہ نہیں جانتا ہے کہ اصل خوشی اس بات میں ہے کہ چوٹی پر پہنچ کیسے گیا۔ میں نے یہ بھی جانا ہے کہ جب ایک نومولود بچہ اپنے باپ کی انگلی پکڑتا ہے تو وہ باپ کو ہمیشہ کے لیے اپنی محبت میں قید کر لیتا ہے۔ میں نے یہ بھی جانا ہے کہ انسان کو نیچے کی طرف اس وقت دیکھنا چاہیے جب اسے کسی دوسرے انسان کو اوپر اٹھانا ہو۔ اے انسانو! میں نے تم سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اگر میں اس سب کو اپنے سینے میں لے کر مر جاؤں تو یہ بد قسمتی والی موت ہو گی‘‘۔