دنیا بھر میں گذشتہ چوتھائی صدی کے دوران رواداری ، خردافروزی اور روشن خیالی کی تحریک پسپائی میں چل رہی ہے۔فاتح سرمایہ داری نظام اپنی مختلف صورتوں، انداز اور لباس میں دندنا رہا ہے۔ اس پسپائی نے عمومی طور پر دلیل کو کمزور کردیا ہے اور چاقو بازی ، لات ماری پیسہ کو اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ڈالا۔
اس پچیس سال میں خود ہمارے وطن کو ایسی نظرِ بد لگ گئی کہ پورا سماج پولرائز ہوکر رہ گیا ۔ہر سمت بغض کی آگ ہے ، ہر سُو نفرت کے شعلے ہیں۔ نظریے میں دلائل اور مباحثہ مہاجرت کر گئے، سننے کا تختہ چیخنے نے الٹ دیا،’’ ادّاسائیں ‘‘جیسے خوبصورت الفاظ کو’’ اڑے، اوئے ‘‘کی کرختگی نے ملک بدر کردیا، اختلاف غداری بن گیا،‘ اکٹھ اجتماع اورجلسہ جلوس معیوب ٹھہرے۔۔۔۔۔۔ طاقت، فتویٰ دھمکی اور سازش کو بالادستی ملی، پیسہ عوام الناس کی جیبوں سے چند گھرانوں کے دبئی اکاؤنٹس میں مرکوز و مرتکز ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ بلوچستان کی پہلے ہی کمزور ٹریڈ یونین تحریک ،اس بین الاقوامی ملا کھڑے کی تاب کیا لاتی ، لہٰذا اپنی ہی دھول میں بخارات بن گئی۔
او ر یہ محض بلوچستان کے اندر کا پیدا کردہ معروض نہیں ہے، بلکہ یہ تو امپیریلسٹ عالمی نقشے کی عملی صورت بھی ہے جسے سرمایہ داری نظام نے پیدا کیا ہے۔ جنگبازی اور پیسہ جمع کرنا سرمایہ داری نظام کے پیدائشی امراض جو ہیں۔
سوویت یونین نے مرکر سرد جنگ ختم کردی توسرمایہ داری نظام کا پیدائشی مرض یعنی جنگ اور جنگبازی’’ وار، اگینسٹ ٹیرر‘‘ کی شکل اختیار کر گیا۔ خود اپنے ہی پیداکردہ کے خلاف اعلانِ جنگ ۔ افغانستا ن برباد ہوا، عراق لہومیں لتھڑ گیا، لیبیا ملیا میٹ ہوا اور شام زخم زخم ہوگیا۔ افریقہ تو ویسے ہی سیاہ بختی کی تقدیر لیے موجود ہے۔ مشرقی یورپ ،اور ہمارا برصغیر سرحدی دعوؤں جوابی دعوؤں کے ٹینکوں کے حوالے ہے۔سری لنکا بلوچستان بنا، بلوچستان خارجی کہرام اور داخلی خانہ جنگی کے اکھاڑے کے حوالے ہوگیا۔ساری دنیا بد ترین تلخی کے ساتھ بے اتفاقی میں مبتلا ہے۔ کالے اور گورے کی خونریز نفرت، یہودی اور عیسائی کی جنگ باز نفرت، ریاستی اور انفرادی دہشت گردی کے بیچ مردم کُش نفرت ۔۔۔۔۔۔ ۔الزامات، فتوے، سازشیں، مداخلتیں۔۔۔۔۔۔ دنیا ایک جہنم میں ہے۔ ہم ڈیوائن کا میڈی کے انفرنومیں رہتے ہیں، ایک سلگتی چتا میں جو نہ شعلہ بنتی ہے نہ بجھ جاتی ہے۔ ہر گریباں پہ لپکتی آگ ہے۔جنگ اور جنگبازی کی اس سامراجی تہذیب میں کوئی قبا یافتہ اور کوئی ستر پوش نہیں ہے۔
اس جنگی اور معاشی لوٹ کی فضا میں نازک ترین پری یعنی انسانی جمہوری حقوق سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ہر انسانی اشرف جذبہ مصلوب ہوجاتا ہے اور ہر بین الاقوامیت پسند خواہش مقتول۔ مختلف ناموں بہانوں میں لپٹی انسان سے نفرت والی رائٹسٹ سیاسی تحریکوں کی آبیاری ہوتی ہے۔ ایمرجنسیاں لگ جاتی ہیں، شہریوں سے بنیادی آئینی حفاظتیں چھین لی جاتی ہیں۔ اور نسل پرستی اور جنگجوئیت کے ہزار چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
اب ایک اور کمال انسان نے اس باریہ دیکھنا ہے کہ دنیا بھر میں اپنے عوام کے ساتھ دھوکہ اور ہیرا پھیری کرنے میں حکمرانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ابھی پانامہ پیپرز نے بتایا کہ سعودی عرب کا بادشاہ اور پاکستان کا وزیراعظم، روس کا پیوٹن، آئس لینڈ اور برطانیہ کے وزرائے اعظم، مالٹا ، یوکرین، مصر ، چین کے حکمران سب کے سب ایک ہیں۔ اپنے عوام سے فراڈ میں نہ مذہب کا فرق تھا نہ پوست کی رنگت کا امتیاز، نہ طرزِ حکمرانی میں تضادات آڑے آئے نہ جغرافیہ نے روکا۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ سرمایہ داری نظام کا بالائی طبقہ بلاتخصیصِ نسل و رنگ الحادوایمان ایک ہے۔
پناما لیکس نے بہ ظاہر پورے سرمایہ داری نظام میں ایک ہلچل مچادی ہے۔اِدھر استعفے، اُدھر استعفی کے مطالبات۔ اچانک پوری دنیا کی دیگ میں ابال آگیا۔ تبصرے، مباحث، جلسہ، اسمبلی ،قرارداد۔۔۔۔۔۔ مگر،جہاں جہاں بادشاہت ہے وہاں نہ استعفےٰ نہ مطالبہ۔ جہاں آدھی جمہوریت ہے وہاں کمیشن بناؤ نہ بناؤ کا غلغلہ، اور جہاں ترقی یافتہ جمہوریت ہے وہاں ایک آدھ استعفےٰ۔
مگر غور کیا آپ نے کہ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ مردہ کتا کنوئیں میں بدستور موجود ہے۔ استحصالی کرپٹ نظام وہیں کا وہیں ہے۔بس، فرد اور چہرے میں رد و بدل کی باتیں ہیں۔لگتا ہے سب کچھ گائیڈڈ ہو۔ پہلے وکی لیکس آئے عبرتِ انجام سے بے نیاز لوگوں نے گلے پہاڑ دیے کہ تبدیلیاں آئیں گی۔ کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ اُلٹا اُسی کا سہارا لے کر ’’ منافع ‘‘ نے اپنی مرضی کے کام کروائے۔ ’’ عرب سپرنگ‘‘ کے موقع پر بھی سادہ لوح روحیں غلغلے اور تہلکے میں تھیں کہ عرب عوام جمہوریت کے لیے نکل کھڑے ہوگئے۔ بس اب شاہوں سلطانوں کی خیر نہیں۔ مگر پھر ہم سب نے دیکھا کہ خطے میں سارے بادشاہ سلامت تو سلامت ہیں ، لیبیا اور شام برباد ہوئے۔
نیو ورلڈ آرڈر،طالبان، داعش اور اب پانا ما لیکس۔ کچھ نہ ہوا۔
بے شمار سروں والا سرمایہ داری نظام اپنے بچاؤ کے لیے ہر سال سینکڑوں ہزاروں انسانوں کے سر کھاجاتا ہے۔ ایسے میں ایک آدھ صدراور و زیراعظم اگر اقتدار سے اتر جائیں تواُسے کیا پرواہ۔ بس نظام کو کچھ نہ ہو۔
ایسا ہی ہوا۔ بلکہ الٹا پنامالیکس کے خلاف اِسی ہاؤوہو میں بھی سرمایہ داری نظام نے پی آئی اے کو پرائیویٹائزکرڈالا۔ووٹ ڈالنے والوں میں ساری سیاسی پارٹیاں شامل تھیں۔
فاشزم اور نیم فاشزم کی اس دنیا میں 2016کایومِ مئی منایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔فاشزم جو خود سرمایہ داری نظام کی ایک شکل ہوتی ہے۔
ظاہر ہے مزدور تحریک اور اُس کا بنیادی علامتی دن ،یومِ مئی سرمایہ داری کے خلاف ہی ہوں گے۔ سماجی ناانصافی، بے روزگاری اور مہنگائی کی مخالفت میں مزدور ایکتا اور مزدور جدوجہد کی باتیں ہوں گی۔ مگر اس بار بھی اُس بڑی بربادی کا تذکرہ صفِ اول پہ ہوگا جس کو سرمایہ داری کی چھیڑی جنگ کہتے ہیں۔امن کا نعرہ اِس یوم مئی کی ابتدا بھی ہے ،ماضی کا تسلسل بھی، اور آئندہ کا پروگرام بھی۔ امن بلوچستان کے اپنے ہاں پیدا شدہ جنگ میں بھی، اور امن عالمی سرمایہ داری نظام کی پیداکردہ پیچیدہ جنگ میں بھی۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا اور وسیع کام ہے یہ، بلوچستان اور اُس کے اندر موجود بہت ہی لاغر جمہوری تحریک کے بس اور بساط سے باہر۔
اچھی بات یہ ہے کہ امن ،بین الاقوامی مزدور طبقے کے منشور کا لازمی حصہ ہے۔ وہ خواہش گو کہ خود ابھی نہ متشکل ہے نہ منظم۔
بلوچستان بری طرح سے عالمی سرمایہ داری سے جکڑا بندھا ہے ۔ ہمارے مسائل کا بڑا حصہ وہیں سے ہے تو حل کا بڑا حصہ بھی وہیں سے ہے۔فرد کی طرف سے فرد کا استحصال کپٹلزم والے ہر ملک میں جاری و ساری کا وجود تک ہڑپ کر جانے والی جبلت بھی سرمایہ داری نظام کی ہے ۔ (صنفی جنڈر)استحصال اِس نظام کی تیسری بڑی اور سیاہ خصوصیت ہے ۔ لہٰذا مالیاتی سرمایہ کی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کا ایجنڈہ لیے بغیر کوئی جدوجہد جدوجہد نہ ہوگی، بس انارکی ہوگی۔ سرمایہ داری نظام ملٹرازم اور جنگ کا بنیادی سبب ہے ۔ اس لیے یہ موومنٹ حتمی طور پر سرمایہ دار طبقے کی ساری سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کی مخالف ہوگی۔ یہ تحریک مقامی ہو تے ہوئے بھی ہر لحاظ سے بین الاقوامی ہوگی اس لیے کہ اس کی مخالف قوت یعنی سرمایہ داری نظام ایک بین الاقوامی نظام ہے۔
لہٰذا ایک بین الاقوامی مظہر کے خلاف ایک بین الاقوامی سیاسی تحریک کاجزو ہونا پڑے گا۔ یہ دیکھے اور انتظار کیے بغیر کہ وہ تحریک آج موجود ہے بھی یا نہیں۔ مقتل میں موجود تحریک بھلا کب دُھند سے شفاف ہوتی ہے ۔مگر ، یہ تو ہے کہ تحریک کا پروگرام تو ہر جگہ محسوس کیا جانے لگا ۔ اس تحریک کا پروگرام دو حصوں پر مشتمل یک نکاتی ہے:
جنگ وکرپشن کی مخالفت۔سرمایہ داری نظام کی مخالفت۔
اور پھربغیر کسی حیل و حجت اور شف شف کے بتانا ہوگا کہ اِس تحریک کا روحِ رواں مزدور طبقہ ہے۔ وہ خواہ مظبوط ہے یا کمزور ، منتشر ہے یا متحد، منظم ہے یا غیر منظم۔اسے ہی ابتدا کرنی ہے، اسے ہی اپنے پیچھے سماج کے پراگریسو عناصر کو متحد کرنا ہے۔ یہ جنگ مخالف تحریک جو کہ سرمایہ داری مخالف تحریک ہوگی سوشلزم ہی کی طرف جائے گی۔
بلاشبہ اِس گنوائے ہوئے جنم میں صرف وہی لوگ جنم جی کر ،بِتا کر جائیں گے جو انسانیت کی اشرفیت کو سونا چاندی بچانے والے توپوں ٹینکوں تلے لوتھڑوں میں پرخچے ہونے کی مخالفت کریں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے