ڈاکٹر انوار احمد عصرِ حاضر کے اہم ترین افسانہ نگار ہیں ۔ انھوں نے اپنے پُرتاثیر اسلوب کے ذریعے اردو افسانے کو نئی فنی اور معنیاتی اِمکانات سے روشناس کرایا ہے ۔وہ کردارکو محض عقلی یا روحانی کسو ٹی پر نہیں پرکھتے بلکہ ان کے باطن میں سفر کرتے ہیں ۔وہ پیچیدہ خیالات اور لطیف احساسات کو سہولت کے ساتھ بیان کرنے اور ان کو متشکل کرنے پر قادر ہیں۔ ان کے اسلوب میں ایسی سادگی ،بے ساختگی اور تازگی ہے جس کی نظیر ان کے معاصر افسانہ نگاروں میں بہت کم ملتی ہے۔زیر نظر کتاب ’’آخری خط ‘‘ڈکٹر انوار احمد کا افسانوی مجموعہ ہے جو مجھے میڈم ڈاکٹر روبینہ ترین کی وساطت سے پڑھنے کو ملا۔ عنوان نے نہ صرف مجھے چونکا دیا بلکہ میں یہ سوچ کر پریشان بھی ہو گیا کہ خدا نخواستہ یہ مجموعہ کہیں ڈاکٹر صاحب کا آخری افسانہ یا مجموعہ تو نہیں۔لیکن جب مذکورہ افسانہ پڑھا تو وہم کسی حد تک دور ہوگیا ۔ز یرِ نظر افسانوی مجموعہ شعبہ اردوزکریا یونیورسٹی ملتان کے نام معنون کیا گیا ہے۔
مجموعہ میں کل اٹھائیس (۲۸)افسانے شامل ہیں۔جن میں مصنف کے قیامِ ترکی کے دوران لکھے گئے پانچ افسانے( نمروت کی چوٹی ،اُمیت کوئے کی کہانی،انقرہ کے
کو غلو پارک کی ایک حکایت،تبریزی لب اور حکایت نَے، محبوبِ خلائق اور مردانہ ہاتھ ) اور جاپان میں لکھے گئے دو افسانے (نا گندے بچے ناں!رونا نیں، آخری خط) بھی شاملِ اشاعت ہیں۔ ان میں سے بیشتر افسانے جومصنف کے افسانوی مجموعے’’ایک ہی کہانی‘‘ اور ’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘ سے منتخب کیے گئے ہیں ۔تاہم ان افسانوں کا اختصاص یہ ہے کہ یہ افسانے زمانی ترتیب سے منتخب کیے گئے ہیں۔ پہلا افسانہ ۱۹۷۲ ء کا اور آخری افسانہ ۲۰۰۹ ء کا تحریر کردہ ہے جو مصنف کی سینتیس برسوں پر محیط فکشن سے لگن اور ریاضت کا مظہر ہے۔ پسِ ورق پر ڈاکٹر اے۔بی اشرف رقم طراز ہیں کہ:
’’انوار احمد کے پاس ایک درد مند دل اور کہانی کا آدرش ہے، وہ کسی صورت میں کسی سطح پر ظلم و استحصال کو برداشت نہیں کرسکتا۔اس کی سائیکی فوری طور پر مجروح ہوتی ہے لیکن یہ مجروح انسان بے حوصلہ نہیں ہوتا ،وہ ظلم ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو چیخ اُٹھتا ہے ، لیکن اس کی چیخ میں شور یا ہنگامہ نہیں ۔ پر یہی کرب ان کی کہانیوں میں تحلیل ہو کر جذبوں میں طوفان برپا کردیتا ہے، ضمیر کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے ۔ جب وہ اپنے معاشرے کے لاچاروں کے آنسو نہیں پونچھ سکتا ، اُن کے کرب کا مداوا نہیں کرسکتا تو پھر کہا نی لکھنے بیٹھ جاتا ہے اور پھر سارا کرب ، سارا دکھ کہانی میں سمٹ آتا ہے۔ پھر اُس کی کہانی سرگوشی کرتی ہے ۔گندے بچے رونا نیں ‘‘۔
کتاب کا پہلا افسانہ ’’نوں جی‘‘ہے ۔ جس میں مصنف کا مشاہدہ عروج پر نظر آتا ہے۔ اور انسانی نفسیات کی عکاسی بھی ،رکشے والا اپنی سرگزشت کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کا ذکر برملا مصنف سے کرتا ہے ۔جب ایک سواری اُس کے طے کردہ کرائے کے پیسے کم دے کر اُتر جاتی ہے۔ تو وہ کہتا ہے:
’’باؤ جی میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ پچاس پیسے کم دے گئی ہے ۔ اور میرے گھر میں کھانے والے نوں جی ہیں‘‘۔
(مذکورہ افسانہ چونکہ ۱۹۷۲ میں لکھا گیا ہے لہٰذا اُس وقت پچاس پیسے کی بھی بہت اہمیت تھی)
’’آسٹروٹرف ‘‘میں ایسے افراد کو موضوع بنایا گیا ہے جو دولت یا شہرت کے لالچ میں بیرونِ ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے وطن کو فراموش کردیتے ہیں۔
’’پہلا محبِ وطن بچہ‘‘بظاہر ایک مختصر سا المیہ افسانہ ہے مگر اس کے اندر جہانِ معنٰی آبا دہے ۔اس افسانے کے کردا کی ایک تقریب میں جس میں محض لطیفے سنائے جارہے تھے صرف اس وجہ سے پٹائی کی جاتی ہے کہ وہ اُن نام نہاد لوگوں کی لطیفہ بازی اور یاوہ گوئی میں حصہ لینے یا ان کو داد دینے کی بجائے خاموش رہتا ہے لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اُسے خاموش رہنے اور سوچنے کی بھی سزادی جاتی ۔۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ کچھ دیر اُس منظر کو دیکھ کر اُداس بیٹھا رہا اور پھر سوچنے لگا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسی اندھی رات چپکے سے اُس کے شہر پر سے گزر جاتی، اسی لمحے اُس پر گالیوں ،مکو ں اور لاتوں کی بارش ہونے لگی۔اُس نے بے ہوش ہونے سے پہلے چندکڑکتی آوازیں سنیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس حرام زادے کو سوچتے دیکھا ہے، پھر گنجا ن آبادی کے اس شہر میں وہ اکیلا ہوگیا ۔ جب ہر گھر کا دروازہ ایک ہی طرح سے اُس پر بند ہوا تو وہ بھول ہی گیا کہ اُس کا اپنا گھر کون سا تھا اور جب سبھی لوگ اُس کے سائے سے بھاگنے لگے تو اُسے دوست اور دشمن کا فرق بھی مصنوعی سا لگا‘‘۔
مذکورہ افسانے میں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ اس معاشرے میں مثبت سوچ رکھنے والوں، باضمیروں ،فلسفیوں،دانشوروں،ادیبوں اور مظلوموں کا ساتھ دینے والوں سے دشمنی اور حسد کیا جاتاہے جبکہ منفی سوچ رکھنے والوں اور بے ٖضمیروں کو سہولیات کے علاوہ ہر قسم کا پروٹوکول فراہم کیاجاتا ہے ،شاید اسی لئے رام ریاض نے کہا تھا کہ:
ہاتھ خالی ہوں تو دانائی کا اظہار نہ کر
ایسی باتوں کا بڑے لوگ بُرا مانتے ہیں
مگر مصنف قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے اُس وقت بھی دانائی کا اظہار کیا جب اُن کے ہاتھ خالی تھے اور اس وقت بھی جن اُن کے ہاتھ خالی نہیں ہیں ، وہ دانائی کا اظہار کررہے ہیں، اور ان شاء ا للہ تا حیات کرتے رہیں گے۔ مصنف کی مجلسی شگفتگی بے مثال ہے۔ اس لئے اُن کی تحریر میں طنزو ظرافت کا در آنا عیب نہیں لگتا۔ اُن کے افسانے ’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘میں کہیں کہیں انشائیہ کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً!
’’پہلے توکہانیوں کا آغاز و انجام ایک سا ہوتا تھا اب ساری مہمیں ایک سی ،ساری محبتیں ،نفرتیں اور سازشیں ایک جیسی ہوگئی ہیں ۔ بعض لوگ ایک ہی شخص سے محبت کرنے سے نہیں اُکتاتے۔ ایک ہی گھر میں رہنے سے خائف نہیں ہوتے ۔اور ایک ہی خواب دیکھنے سے اُن کا جی نہیں اوبتا‘‘۔
افسانہ’’ناقابلِ اشاعت‘‘سانپ جیسی آنکھوں والے کے دور میں لکھا گیا جس میں علامتی انداز میں ایسے کردارو ں بالخصوص نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کے منفی اور
بھیا نک اعمال کی نقاب کشائی کی گئی ہے ۔ جو اپنی زندگی میں جعلی سندیں بنوا کر اعلیٰ عہدے حاصل کرلیتے ہیں ۔ اور سادہ دل بندوں کو لوٹتے ہیں ۔ اور مرنے کے بعد اُن کے عزیز وا قارب اُن کی لوٹی ہوئی دولت سے عیاشی کرتے ہیں۔ افسانے کے لئے افسانہ نگار کا اسلوبِ بیان بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کا وہ انفرادی طرزِ نگارش ہے جس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے ممّیزہو جاتا ۔ ڈاکٹر انوار احمد ایک صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں ۔ اُن کے اسلوب کی مثال کے لئے اُن کے افسانے’’کہانی اور کہر‘‘ کا ابتدائی پیرا گراف ملاحظہ فرمائیں:
’’کہانی سے کہا گیا کہ وہ گریہ نہ کرے ، سوگ نہ پھیلائے بلکہ افسردگی اور آزردگی کے حجرے سے نکل کر اُن محفلوں کا رُخ کرے جہاں شوق کے الائی دہک رہے ہیں۔ اُن دلوں میں جھانکے جہاں دھڑکنوں نے دھمال ڈال رکھی ہے۔اُ ن آنکھوں کی رازداں بنے جو خواب بنتی ہیں اُن ہونٹوں کی شادابی کو محسوس کرے جہان لفظوں کا چشمہ پھوٹتاہے اور قلم تھامے ہوئے اُن ہاتھوں کو بوسہ دے جو خوشخبری لکھتے ہیں‘‘۔
مذکورہ اقتباس کی خواندگی سے قاری ایسے حظ اُٹھاتا ہے جیسے کوئی آزاد نظم پڑھ رہا ہو۔ ایسی نظم جو کانوں میں رس گھولتی ہے ۔ اور جی چاہتا ہے کہ آدمی سنتا یا پڑھتا ہی چلا جائے یہ کبھی ختم نہ ہو۔ اگر چہ مصنف کو رومانی افسانہ نگار قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اُ ن کے بعض افسانوں میں ایسے پیرا گراف مل جاتے ہیں جن سے قاری جمالیاتی انسباط محسوس کرتا ہے۔ اس ضمن میں افسانہ ’’ایک ہی کہانی ‘‘سے اقتبا س ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ شہر کی سب سے زیادہ پُرکشش لڑکی تھی جسے اپنی سحر آفرینی کا پورا احساس تھا ۔ چنانچہ اپنی قو ت سے سرشاروہ فاتحانہ انداز میں مسکراتی رہتی تھی۔ اس شہر کے کم وبیش ہر مرد نے اُس کے نام محبت نامہ بھیجا تھا وہ اُن خطوط کو زیرِلب مسکراہٹ کے ساتھ پڑھتی پھر ہر خط کے آخرمیں قدم بوسی کے آرزومند کا نام اور پتا پڑھ کر اس طرح مسکراتی کہ اپنی خوبصورت آنکھیں دو چار بار جھپکاتی اور مسکراتی جاتی۔۔۔میں نے اُسے ایک محفل میں دیکھا تو اپنی بیوی کی موجودگی میں بھی اسے دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا ۔ اُس نے جوڑے کو موتیے کے پھولوں سے گوندھ رکھا تھا اور کانوں میں موتیے کی ہی شکل کے بندے تھے۔ گلے میں چمکیلے موتیوں کی مالا اور اس کی دراز قامتی سیاہ کامدا ر ساڑھی میں نمایا ں ہورہی تھی ۔ میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ واہ کیا خوبصورت لڑکی ہے‘‘۔
’’گوشہ ترکی ‘‘کے افسانے جہاں قاری کو ترکی کی تہذیب و ثقافت سے روشناس کراتے ہیں وہاں ترکی زبان کے مختلف الفاظ جاننے اور سیکھنے کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں ۔ ان افسانوں میں مصنف کی قوتِ مشاہدہ اور ابلاغ کی قوت غضب کی ہے ۔گوشۂ ترکی سے چند الفاظ ملاحظہ فرمائیں جن کی بدولت ترکی زبان سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(پہلا لفظ اُردو اور دوسرالفظ ترکی زبان کا ہے)
(نمرود۔۔۔نمروت)، (بطخوں کا پارک۔۔۔کوغلو پارک)، (بڑے بھائی۔۔۔آبے)، (روٹی۔۔۔ایکمک)، (مولانا ۔۔۔میولانا)، (ناشتہ۔۔۔قہوہ لی)، (بھائی ۔۔۔کاردیش)، (استاد کا گھر ۔۔۔اور تمین ایو)، (خانم ۔۔۔حانم)، (کُھلا ہوا یا اوپن۔۔۔اَچَک) وغیرہ۔
ڈاکٹر صاحب کے افسانوں میں وحد ت تاثر موجود ہے۔ وہ جس انداز سے کہانی کا پلاٹ بنتے ہیں اور ماحول کی تخلیق کرتے ہیں وہ قاری کی حیرت میں اضافہ کرتا ہے ۔ منظر کشی پر انہیں خاص مہارت حاصل ہے۔وہ جس منظر کی عکاسی کرتے ہیں اُس کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔:
’’یہ وہ گلی ہے جہاں نئے ماڈل کی کاریں اتنی ہوتی ہیں کہ اکثر ٹریفک بلاک ہوجاتی ہے۔ اسی گلی کے ایک کونے پر بطخوں کا پارک یعنی کوغلو پارک موجود ہے۔ اسی پارک میں صبح کے وقت تو بعض تھکے ہوئے مسافر ، بے گھر سرخوش ،اور رات کی بچی ہوئی روٹی یا ایکمک ، کبوتروں اور بطخوں کو ڈاْلنے والے چندنیک دل ہوتے ہیں مگر شام کے وقت خاص طور پر بہار اور گرمی کی شام کے وقت یہاں بہت رونق ہوتی ہے۔ ہر طرح کے عاشق یعنی باوفا،موسمی ،جزوقتی، ناکام یا بعض اوقات کامیابی کے ہاتھوں زچ ہونے والے موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کے ہاتھ اور بازو مشغول ہوتے ہیں ، اگر ان میں محبو بہ کا ہاتھ یا کیمرہ نہ ہو تو پھر آئسکریم یا بیئر ہوتی ہے۔ اور محبوبائیں بھی ہر عمر اور ہر قوم کی ہوتی ہیں حتیٰ کہ طربان اوڑھنے والیاں بھی‘‘۔(انقرہ کے کوغلو پارک کی حکایت۔ص۱۳۵)
’’تبریزی اور حکایتِ نے ‘‘کی خواندگی سے تاریخی معلومات بھی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر قونیہ میں علامہ اقبارل کے نام سے منسوب ایک پارک ہے ، جس میں علامہ اقبال کی علامتی قبر ہے اور اسی شہر (قونیہ)میں مولانا روم کے مرشدشمس تبریز کا مزار بھی ہے۔
’’محبوبِ خلائق اور مردانہ ہاتھ‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ معروف تاریخی لطیفہ گو شخصیت ملا نصیر الدین انقرہ آسودہ خاک ہیں۔
’’گوشۂ جاپان‘‘میں صرف دو افسانے ’’ناں گندے بچے ناں، رونا نیں‘‘ اور ’’آخری خط ‘‘ شامل ہیں اوّل الذکر افسانے میں مصنف نے سرائیکی زبان کا ایک لفظ’’مونجھ‘‘ استعمال کیا ہے اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ایک یہ کہ مصنف خود سرائیکی ہیں ،دوسری یہ کہ ’’مونجھ‘‘خالص سرائیکی یا ملتان زبان کا لفظ ہے جس کا شاید اردو یا دیگر زبانوں میں کوئی ایسا خاص مترادف بھی نہیں ملتاجو اس کے صیح مفہوم کو واضح کرسکے۔ ٹائٹل افسانہ’’ آخری خط‘‘ کی کہانی کا پسِ منظر جاپان کے ایک انگریزی اخبار کی یہ خبر تھی کہ
’’ناؤلی نامی ایک خوبصورت نوجوان لڑکی نے جو جاپان سٹیج اور ٹی وی کی اداکارہ بھی تھی، نے اپنے باپ کی قبر پر خودکشی کرلی ہے‘‘۔
اس مختصر خبر کو بنیاد بناکر اوساکا یونیورسٹی جاپان میں پاکستان سے آیا ہوا اردو کا پروفیسر اپنی فکشن کی کلاس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
’آؤ بھئی !اس پر ایک کہانی لکھتے ہیں، سب سے پہلے تو وہ آخری خط لکھنے کی کوشش کریں جو پولیس یا اخبار والوں کو تو نہیں ملا مگر اس کے معصوم اور خوبصورت مگر خوف زدہ دل میں ابھی تک ہوگا‘‘۔
پھر اُس لڑکی کااپنے والد کے نام وہ فرضی خط درج کیا گیا ہے جس میں مصنف نے فنی چابکدستی سے اُس لڑکی کے احساسات و جذ بات کے علاوہ اُس کی خود کشی کے محرکات کو پیش کیا ہے ۔ کہا جاتاہے کہ تحریر مصنف کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے۔اس افسانے میں مصنف اردو کے استاد کے کردا رمیں خود موجود ہیں۔ ایک تو انھوں نے حسب سابق اپنے نام کے ساتھ پروفیسر کی بجائے استا د شعبۂ اردو تحریر کیا ہے ، دوسرے وہ خود افسانہ نگاربھی ہیں ۔ اس لئے انھوں نے اخبار کی ایک خبر کو موضوع بنا کر آٹھ صفحات پر مشتمل خو بصورت اور خیال انگیز افسانہ تخلیق کیاہے ۔ جو اُن کی وسعت نظری ، عمیق مشاہدہ ،کہنہ مشق اور جہاں دیدہ ادیب و افسانہ نگار ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔’’ آخری خط‘‘محض افسانہ ہی نہیں بلکہ جاپان ایسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خودکشی،اخلاقی اقدار کی پامالی، اطمینان کا فقدان،بزرگوں سے بے اعتنائی،بے مقصدیت اور لایعنیت ایسے مسائل اور تلخ حقائق کو بھی سامنے لاتا ہے ۔ اس افسانے میں انھوں نے بطور افسانہ نگاراور استاد ادبیات اردو اپنے شاگردوں کو افسانہ لکھنے کے مختلف طریقوں سے بھی آگاہ کیاہے۔افسانے کے اختتام پر ایک طالبہ کا یہ سوال کرنا کہ:
’’جو کہانی دردناک ہو ، سمجھ میں بھی آجاتی ہو،وہ دلچسپ کیسے ہوسکتی ہے؟‘‘۔سے مترشح ہوتاہے کہ مصنف کی کلاس کے طلباو طالبات ان کے لیکچر زکو نہ صر ف غور سے سنتے ہیں بلکہ سوالات بھی کرتے ہیں جو ان کی دلچسپی اور سیکھنے کے عمل کو ظاہر کرتے ہیں۔ مصنف نے زندگی کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے ۔اور اس مطالعے اور مشاہدے کے بعد جوکچھ پایا یا کھویا ہے اسے اپنے افسانوں کی اساس بنایا ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار فرشتے نہیں بلکہ عام انسان ہیں۔ وہ کبھی خوشیوں سے ہم کنار ہوتے ہیں اور کبھی المیوں اور محرومیوں سے۔ان کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہماری زندگی کی کہانی بیان کررہے ہیں شاید اسی لئے ان کرداروں کا المیاتی انجام بعض اوقات افسردہ بھی کردیتا ہے۔ ڈاکٹر انوا راحمد کے افسانوں کی تفہیم اور ان کی تخلیقیت اور معنویت تک مکمل رسائی حاصل کرنے کے لئے صاحبِ مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ باذوق ہونا بھی شرط ہے۔’’آخری خط‘‘اردو کے افسانوں میں ایک نایاب اور وقیع اضافہ ہے ۔