8ما رچ1960کی دھو پ بھری سہ پہر کوا طا لو ی ایئر لا ئن ال اتا لیا کی ایک پرواز کر اچی ایر پو رٹ پر اترتی ہے ۔ سفید رنگت والے یو رپی مسافر ،جو سیدھے پیرس سے آرہے ہیں ، جہاز سے اترنا شروع کر تے ہیں ۔ ان میں کا نونٹ کی ایک تیس سالہ جرمن شاگر دہ روتھ فا و بھی ہیں جو ہندوستا ن جاتے ہو ئے یہاں عارضی طور پر رکی ہیں ۔ان کے پا س مختصر سے سامان کے علاوہ تین عہد ہیں جو انھو ں نے پیرس میں ’’ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری ‘‘ نامی کا نونٹ کی شاگردہ کے طو ر پر اپنے پہلے بر س کے دوران کیے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔ناداری پاکبازی اور اطاعت کے عہد ۔
وہ جس مسیحی تنظیم سے وابستہ ہیں اس کی بنیاد فرانسیسی انقلاب کے دوران میری ایڈیلیڈ نے رکھی تھی ، اوراس کے ضوابط اُن کا مشن دنیا میں کسی بھی جگہ انسانی مصائب کے خلاف کام کرنا ہے ۔
جرمنی کی ایک یو نیورسٹی سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد روتھ فاؤ کو ہندوستان اور پا کستان دونو ں جگہو ں سے درخواستیں مو صو ل ہو ئی ہیں کہ وہ وہاں آکر کام کر یں۔ انھو ں نے کراچی میں اپنی کمیو نٹی کی درخواست یہ سوچ کر منظور کر لی ہے کہ یہا ں سے وہ ہندوستان کا ویزا آسانی سے حاصل کر سکیں گی ۔
ایئر پو رٹ سے انھیں سیدھے گرومند پر واقع لڑکیو ں کے ہا سٹل لے جا یا جا تا ہے جو مزارِ قائد سے پیدل کی دوری پرواقع ہے ۔راستے میں انھیں گھروں کے با ہر لگی بیلو ں پر بو گن ویلیاکے پھولوں کے گھچے دیکھ کر ان پر گلاب کے پھو لو ں کاگمان ہو تا ہے ۔مو سم سرما کے گرم کو ٹ میں ملبو س روتھ فا ؤ کو کراچی کی استوائی گرمی کی حدت نا قابل برداشت معلو م ہو تی ہے ۔ اپنے طو یل سفر کی تھکان کے علاوہ انھیں بھو ک بھی محسوس ہو رہی ہے ۔اورمتلی بھی ۔لیکن ہاسٹل کی سپیر یئر مدر میری ڈائل اصرار کرتی ہیں کہ وہ کھانے سے پہلے دعاکی مجلس میں شریک ہو ں ۔براعظم ایشیامیں ان کا پہلادن خاصاپر مشقت ثابت ہو رہا ہے ۔ ان کی رات دم گھو نٹ دینے والی گرمی اور کمرے کے نصف دیوار والے پا رٹیشن کے دوسری طر ف بجتے ہو ئے ریڈیو کی آواز سے لڑتے ہو ئے گزرتی ہے ۔نیم غنودگی کے عالم میں رو تھ فا ؤ کو پاکستان کی سرزمین کچھ زیادہ مہمان نواز محسوس نہیں ہو تی ۔
آنے والے ہفتو ں کے دوران وہ خو د کو زبان کھو لنے سے قاصر اور اکتا یا ہوا محسوس کرتی ہیں ۔ مشرقی جرمنی میں واقع اپنے سکول میں انھوں نے جو ابتدائی انگریزی سیکھی تھی وہ کب کی ان کے ذہن سے فراموش ہوچکی ہے۔ پیرس میں اپنے قیام کے دوران جو تھوڑی بہت فرانسیسی انھو ں نے اِدھر ادھر سے سیکھ لی تھی اس کے سہارے وہ برینس سے بات چیت کر پا تی ہیں جو میکسیکو سے آئی ہو ئی فا رماسسٹ ہیں اور روتھ کو چھو ڑ کراس گروپ کی واحد غیر امریکی رکن ہیں ۔برینس اپنی مادری زبان ہسپانوی کے علاوہ فرانسیسی میں بھی مہارت رکھتی ہیں ۔روتھ کو بو ل چال کی انگریزی میں اپنی استعداد بحال کرنے میں تین ہفتے لگ جاتے ہیں ۔تب ایک دن برینس انھیں کراچی کی سب سے بڑی تجارتی شاہراہ میکلو ڈ روڈکے عقب میں واقع جذامیو ں کی بستی میں چلنے کی دعوت دیتی ہیں ۔
1960کے اس تقد یر سازدن روتھ فاؤ پاکستان میں رہ کر ان لو گو ں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں جن کی خدمت نہ کسی اورنے کی تھی اورنہ کو ئی اورکرنے والا تھا ۔