وہ مزید تیزی سے دوڑنے لگا جیسے زندگی کے لئے دوڑنے کا حق ہے۔ اور اس کے پیچھے دوڑنے والے بھی ویسے ہی بھاگے آ رہے تھے۔ جیسے انھیں اس کے پیچھے بھاگنا چاہئے تھا۔ وہ تھک چکا تھا، اس کے پاؤں کے جوتے کہیں راستے میں ہی رہ گئے تھے۔ سڑک پر نجانے کتنے نوکیلے پتھر تھے۔ اس کے پاؤں سے خون بھی رس رہا تھا۔ جو بھی تھا، وہ انسان تھا اور اس کے پیچھے بھاگنے والے۔۔۔وہ کیا تھے؟ وہ کون تھے؟ وہ گھبرا گیا، وہ دوڑتے دوڑتے مابین فاصلے کو اتنا کم کر چکے تھے کہ موت لحظہ بھر میں زندگی کو اچک لیتی۔ اس نے گرتے ہوئے نیلگوں آسمان پر غروب ہوتے ہوئے سورج کی شفق دیکھی۔ کچھ چیزوں کا دورانیہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، ان کا ختم ہو جانا ان کی آفاقیت اور لافانیت کے لئے رکاوٹ ہے۔ ایسی رکاوٹ جو فانی اور لافانی کے درمیان فرق واضح کرتی ہے۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھا، اس کا سارا جسم پانی سے شرابور تھا۔ اس نے اپنی کنپٹی کو چھوا۔ یہ پسینہ تھا۔ تو کیا یہ خواب تھا؟ میَں پھر بچ گیا ہوں۔ اس نے شکر ادا کرنے کے لئے نظریں اوپر کو اٹھائیں لیکن بیچ لمحے میں ہی گھڑی کے الارم نے اس کے مزاج کو بدل ڈالا۔ جانے کتنے عرصے سے وہ خواہشمند تھا کہ اس کی آنکھ الارم کے بجنے سے کھلے اور وہ تب تک ذرا سکون کی نیند لے لے۔ لیکن گزرتا وقت اندیشہ تھما رہا تھا کہ یہ خواہش حسرت بننے والی ہے۔ الارم کے لگا تار بجنے نے اس کے دماغ میں وہی آواز پیدا کر دی تھی جس سے وہ خوابوں میں بھاگتا پھرتا تھا۔ کوئی کمرے میں داخل ہوا۔ یہ فیشنی لباس میں اندر آنے والی خاتون اس کی بیگم تھی۔ جس کے بے شکن قیمتی لباس سے اس کی پیشانی ذرا میل نہیں کھا رہی تھی۔
"اللہ انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ نہ کرے۔ جب یہ اچھے حالوں میں تھے تب سنبھالے نہیں گئے اب تو اللہ ہی سنبھالے”۔شازیہ بڑ بڑا رہی تھی۔ مستقیم کے لاشعور میں کہیں جی جی کرتی بیوی چھم سے آئی جس کے نخرے اٹھاتے "وہ” اس کے پیچھے لگ گئے تھے۔ ” اب اٹھیں، جائیں نہا لیں”، شازیہ نے زبردستی مستقیم کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔ واش روم میں داخل ہو کر اس نے شاور کھولا۔ پانی کے چند قطرے سر پر گرے اور سکون اس کے رگ و پے میں دوڑ گیا۔ اللہ کی عظیم نعمت ہے پانی۔ انسان نعمتوں پہ شکر ادا کرتے ہیں، انہیں آزمائشوں میں خدا کیوں بھول جاتا ہے۔ چند قطروں کے بعد وہ پھر سے آنے لگے، ٹھک ٹھک تھک۔۔۔
وہ اس کے سر پر بج رہے تھے۔ اس کے دماغ سے ٹکرا رہے تھے۔ یہ کیسی جنگ تھی جو اس کے شعور اور لا شعور کے درمیان آ کھڑی ہوئی۔ وہ تسلسل سے برستے رہے۔ ان کے کناروں کے کٹاؤ اس کے سر کی کھال کو کاٹ رہے تھے۔ اس نے شاور بند کیا اور کھانے کی میز پہ آ کر بیٹھ گیا۔
"یہ کھانا کھا لیں”۔ شازیہ نے اس کے سامنے ڈبل روٹی پر مکھن لگا کر رکھا۔ "یہ کیا ہے”؟ مستقیم کو بھی ڈبل روٹی ہی نظر آ رہی تھی مگر اس نے تصدیق چاہی۔ "ڈبل روٹی”۔شازیہ نے نخوت سے منہ چڑایا۔ مستقیم نے سانس بھراا ور پلیٹ سے سلائس اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔ ڈبل روٹی دانتوں کے درمیان آئی اور "ان” میں بدل گئی۔ اس کے دانتوں نے اس سختی کے جھیلنے پر اْف کی۔ شازیہ غضبناک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ روز کا ڈرامہ آج پھر ہونے والا تھا۔ مستقیم نے دوبارہ ڈبل روٹی منہ میں ڈال کر چبانے کی کوشش کی لیکن سختی نے دانت کو ٹوٹنے پر مجبور کر دیا۔ "میَں کہتی ہوں یہ کیا ڈرامہ ہے، یہی شخص زندگی میں رہ گیا تھا، کبھی واویلا کرتا ہے، کبھی پلیٹ میں ٹوٹا دانت رکھ دیتا ہے۔ ڈبل روٹی منہ میں ڈالنے سے بھلا کس کا دانت ٹوٹتا ہے”۔ شازیہ شور ڈال رہی تھی۔ پہلے خواب اور اب یہ عذاب۔۔۔
مستقیم بس پھٹنے والا تھا جب سامنے والے کمرے سے اس کا بڑا بیٹا ذیشان نکلا۔ "اوہو امی، بس بھی کریں، باپ ہے ہمارا۔ بدل تو نہیں سکتے۔ وہی دباؤ میں ہیں، کسی دارالامان میں بھیج کر خاندان بھر کی باتیں بھی نہیں سن سکتے”۔ ذیشان نجانے اس کی طرف تھا یا اپنی ذات کی طرفداری کر رہا تھا۔ "تم بتاؤ میَں کیا کروں” مجھے بدل لو، مجھے کہیں چھوڑ آؤ”۔ یہ دانت توڑ کر بیٹھ جاتے ہیں، ڈبل روٹی میں پتھر تو ڈال کر نہیں دیتی”۔ شازیہ کا اپنا واویلا تھا۔ "دانت کمزوری سے بھی ٹوٹ سکتے ہیں، یہ ہو سکتا ہے کہ صبح سے ٹوٹے ہوئے ہوں اور انہوں نے منہ میں رکھے ہوئے ہوں، دماغی توازن تو درست نہیں ہے کہ ان سے باز پرس کی جائے”۔ ذیشان نے پھر توجیہہ پیش کی۔ یہ وہی بیٹا ہے جس کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر مستقیم نے اپنی محنت کے گھنٹے بڑھا دیئے تھے۔ "میَں انھیں اپنے ساتھ سائیکاٹرسٹ کی طرف لے جا رہا ہوں”۔ ذیشان مستقیم کو بانہہ سے تھام کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
یہ درمیانے طبقے کے ماہرِ نفسیات کا کلینک تھا۔ جس کے باہر کھوکھا بھی موجود تھا اور چوک میں موجود برگد کے پیڑکے نیچے حجام نے اپنی دکان سجائی ہوئی تھی۔ چھوٹا سا ریسیپشن بنا تھا جس پر ایک لڑکی بے تحاشا میک اپ کئے خالصتاً پیشہ وارانہ مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی۔اس نے آنے والے مریض کو دیکھ کر فوراً ناک بھوں چڑھائی۔ اسے معلوم تھا کہ کم و بیش یہی حال کمرے میں موجود ماہرِ نفسیات کا بھی ہو گاکیونکہ اس الجھے شخص کا کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا۔ ذیشان نے مٹھی گرم کی تو پیشہ وارانہ مسکراہٹ گہری ہو گئی اور پانچ منٹ بعد ہی مستقیم کو اندر لے جایا گیا۔” آئیے صاحب کیسے ہیں؟”۔ ماہرِ نفسیات نے مستقیم کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کھڑے ہو کر کہا۔ "آدمی ہوں”۔ مستقیم نے جواب دیا۔وہی جو پچھلے سیشنز میں بھی دے چکا تھا۔ ماہرِ نفسیات نے خفیف سے مسکراہٹ دی۔ اسے افسوس ہوا۔ پچھلی بار بھی اس نے سوچا تھا کہ اس کا اندازِ تخاطب بدلے گا۔ خیر اس نے لیدر کے صوفے پر مستقیم کو لٹایا اور ٹیک کو نیچے کر دیا۔پھر کمرے میں ہلکی نیلی روشنی بھی کر دی۔ مستقیم اس کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کی حرکتوں پر ہنسنا چاہتا ہو۔ "وہ پھر آئے آپ کے خواب میں؟”۔ ماہرِ نفسیات نے پوچھا۔ "ہاں وہ آئے، وہ بہت بڑے تھے”۔ مستقیم کی نظروں سے خوف جھانکا۔ "کیا ان کو بڑا نہیں ہونا چاہئے؟”۔ ماہرِ نفسیات نے فوراً سوال پوچھااسے پہلی بار "وہ” کے بارے میں اشارہ ملا تھا۔ "نہیں وہ تو چھوٹے تھے، اتنے چھوٹے وہ مجھے ملتے گئے۔ میَں نے سنا تھالوگوں سے دور بھاگتے ہیں مگر مجھے تو خود ہی ملنے لگ گئے۔ اور اب وہ دوڑتے ہیں اور اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ کسی روز مجھے نگل لیں گے”۔ مستقیم نے خوفزدہ لہجے میں صوفے کو مٹھی میں بھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ آپ ان کا چہرہ بتائیں۔ حال احوال سمجھائیں۔ آنکھیں بند کر کے یاد کریں کہ وہ کیسے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میَں آپ کو بچا لوں۔ماہرِ نفسیات نے آگے بڑھ کر مستقیم کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوبارہ بولا۔ آپ آنکھیں بند کریں اور اس منظر میں واپس جائیں۔ آپ مجھے یہ بتائیں بے شک نیکو اور خود کو بتائیں، خود کو سمجھائیں۔ وہ در حقیقت کیا ہیں۔ آپ جب کھل کر سوچیں گے اور سمجھیں گے تو آپ پر ان کی اصلیت آشکار ہو جائے گی۔ پھر یہ ڈر خود ہی ختم ہو جائے گا۔مستقیم نے آنکھیں موندیں، کچھ دیر بڑبڑایا۔ تیس سیکنڈ بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔وہ ڈر تھا جو اس کے گالوں کے کھینچنے سے نمایاں ہونے لگا۔اس نے پھٹ کر کے آنکھیں کھولیں۔”وہ بہت ہیں ڈاکٹر صاحب، وہ بہت ہیں۔ میَں آنکھیں نہ کھولتا تو وہ اس چھت کو پھاڑ کر آ جاتے۔ مجھے اس کمرے سے جلدی نکلنا ہے، انھیں پتہ ہے میَں یہیں ہوں”۔ مستقیم کے پسینے چھوٹ گئے۔ماہرِ نفسیات نے اس کو دیکھا اور پھر گویا ہوا۔ آؤ باہر چل کر سگریٹ پیتے ہیں۔ مستقیم نے اس آفر پر سوال اٹھایا”ہم دونوں پئیں گے؟”۔ اس کا ہاتھ جیب میں جا رہا تھا اور کچھ دیر پہلے کی حواس باختگی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس دوستانہ روئیے کے جواب میں ماہرِ نفسیات کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا ” ہاں دونوں پئیں گے”۔ "پھر پیسے میَں دوں گا”۔ مستقیم کے لہجے میں ضد تھی، جیسے ضد کے اندر بھی کوئی ڈر ہو۔ماہرِ نفسیات نے سر اثبات میں ہلایا۔ اپنے کمرے سے نکل کر جب وہ باہر کی طرف بڑھنے لگا تو ذیشان نے ان دونوں کی طرف آنے کی کوشش کی جسے ماہرِ نفسیات نے ہاتھ کے اشارے سے ناکام بنا دیا۔ کھوکھے والے کے پاس جا کر سگریٹ طلب کئے تو اس نے تعداد پوچھی۔ عدیل نے ہاتھ سے اشارہ کیا اورواپس مستقیم کا جائزہ لینے لگا۔ جس کا ہاتھ کمرے سے لے کر اب تک جیب میں ہی تھا۔ مستقیم نے پیسے نکال کر کھوکھے والے کی جانب بڑھائے اور سگریٹ عدیل کو پیش کیا۔”بقایا لے لیں جناب”، کھوکھے والے نے آواز دی۔مستقیم کے چہرے کا رنگ بالکل ہی بدل گیا۔ اس کے چہرے پر لہو کی ایک رمق بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔وہ سفید تھا، لٹھا سفید۔۔۔”میَں نے کہا تھا نا ڈاکٹر صاحب، وہ یہاں آجائیں گے۔ وہ آ گئے ہیں۔ وہ چمکیلے ہیں، وہ تیز ہیں وہ میری آنتوں کو کاٹ دیں گے۔ وہ گرجتے برستے آ گئے ہیں”۔ مستقیم نے بمشکل یہ لفظ ادا کئے اور سڑک کی جانب دوڑ گیا۔ تیز رفتار ایک پجارو آئی اور اس کے بڑے ٹائروں کے نیچے مستقیم کی ہڈیاں تک باقی نہ رہیں۔
مسجد میں مستقیم کریانے والے کی وفات کا اعلان ہوا تو ایک بچہ دوسرے سے بولا "اب ہمارے بقایا پانچ روپے ہمیں واپس مل جایا کریں گے”۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے