دنیا میں طبقاتی نظام رائج ہے جس میں ازل سے دنیا حاکم اور محکوم جیسے دو بڑے اور اہم طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ عورت کومحکوم طبقے میں دھکیلا گیا ہے اور ہر ہر ذریعے سے اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ عورت کبھی بھی اس برزخ سے باہر نہ آسکے۔ عورت نے کبھی کبھی اس محکومی کی دلدل میں رہنا نہ گوارہ کرتے ہوئے اپنے سماج میں جائز مقام کے حصول کی کوشش جاری رکھی۔
عورت، جسے تخلیق کا ہنر بخشا گیا ہے نے ہمیشہ اپنے شعوری بقا کی منزلیں طے کی ہیں ۔ وہ اس محکومیت کے اسباب سے نہ صرف آگاہ رہی ہے بلکہ اس نظریے سے بھی برسرِ پیکار رہی ہے جس کے تحت کہ وہ کم زور ہے ، کم عقل ہے یا پھر بزدل ہے۔ عورت کو شاعری کے سانچے میں ڈھالنے والوں نے ، گھر کی عزت کہنے والوں نے ، کمزور اور صنفِ نازک جیسے القابات سے نوازنے والوں نے ہمیشہ اپنے اس طرزِعمل سے عورت کی محکومی کو جِلا بخشی بلکہ اسے سماج کا وہ اندھا قانون بنا ڈالاجونسل در نسل منتقل ہوکر اپنی جڑیں مضبوط کرتا رہا۔
یہ عورت کی توقیر کے ساتھ مذاق کیے جانے کے مترادف تھا کہ اسے کم تر سمجھا جائے ، قابلِ رحم اور بیکار سمجھا جائے۔ یہاں تک کہ اس سے کبھی اجرت تو کبھی بنا اجرت ( گھروں میں) مزدوروں کی طرح کام بھی لیا جائے اور ایک ایسی سوچ کو بھی فروغ دیا جائے جس میں عورت کبھی بھی اپنی برابری کا تصور نہ کرسکے۔ خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو۔
لیکن عورت نے ہمیشہ اس نظام کے خلاف جدوجہد کی اور اس امر پر اصرار کیا کہ مرد اور عورت بلحاظ انسانی حقوق برابر ہیں ۔ ایک ہی جتنی عزت، شرف اور توقیر کے بھی حقدارہیں۔ عورت نے اس فرسودہ سوچ کو کبھی قبول نہیں کیا جو اس کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتی۔ اسی سوچ سے ٹکرانے کے نتیجے میں کتنی ہی تحریکیں وجود میں آئیں جو کہ دنیا کے مختلف خطوں میں ابھرتی رہیں۔ ان کی بلاشبہ کوئی ایک شکل نہ تھی مگر مقصد صرف ایک تھا: ’’ عورت کی برابری کا حق‘‘ ۔اس مطالبے کے مخالف اسے ہمیشہ عورت کی ’’ آزادی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس ’’ آزادی‘‘ کو بھی بہت غلط رنگ دے کر پیش کرتے ہیں، وہ عورت کے حقوق کی جنگ کو کبھی مذہبی، کبھی قبائلی تو کبھی سماجی ذرائع سے ناکام کرنے اور اس کی اصل روح کو مسخ کرنے کی ایک نسل در نسل سے منتقل شدہ سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
8 مارچ کا دن انہی قوتوں سے نبرد آزما ہونے اور اس سوچ سے ٹکرانے کی جدوجہد کے حوالے سے تجدید عہد کا دن ہے۔ یہ ازل سے جاری عورت کی بقا کے سفر میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ وہ باب ہے جس میں قربانیوں، قید و بند کی صعوبتوں اور مایوسیوں سے امید تک کے سفر کی ایک دلسوز داستان رقم ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جہاں سے باقاعدہ طور پر عورتوں کی آواز دنیا بھر میں سنی گئی۔
8مارچ کا دن ان تمام کوششوں اور کاوشوں سے عبارت ہے جو عورت نے عورت دشمن سوچ کو شکست دینے کے لیے کیں۔
19 ویں صدی کی اولین دہائی میں جب روزالگزمبرگ اور کلارازیٹکن جیسی عورتیں سوشلزم کی ترویج پر کام کررہی تھیں تو یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ میں خواتین اپنے ووٹ کے حق کی مہم چلا رہی تھیں۔ مزدور خواتین سے زیاد ہ کام اور کم اجرت کے خلاف آواز اٹھارہی تھیں۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کا مطالبہ کررہی تھیں اور بحیثیت انسان اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق مانگ رہی تھیں۔ ان کوششوں اور تحریکوں کے جواب میں ملنے والی اذیتوں کاکوئی شمار نہ تھا۔ تشدد تھا، جلا وطنی تھی، قید و بند جیسی مصیبتیں تھیں ۔ لیکن یہ آواز دبی نہیں ظلم و بربریت کے نقار خانوں میں بھی سنائی دی۔ بالآخر 1908میں ان مزدور عورتوں نے مزدوری کے آخری اتوار کے دن امریکہ میں پہلی یوم خواتین منائی اور اپنے ہی مندرجہ بالا مطالبے دنیا کے سامنے رکھے۔ اس کے اگلے برس8مارچ کو مین ہٹن میں نکلنے والی خواتین کے جلوس میں2000 افراد نے شرکت کی اور انتہائی سرد موسم میں13 ہفتوں تک مسلسل ہڑتال کی۔ یہ ایک بہت ہمت والا قدم تھا جو اٹھایاگیا اور ایک بہت بڑی شروعات کی گئی۔
1910 میں سوشلسٹوں نے امریکہ بھر میں عورتوں کا دن منایا اور 1910 میں ہی’’انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن آرگنائزیشن‘‘کی دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی ۔ تنظیم کی سیکریٹری کلارازیٹکن نے اس دن کو اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے ہر سال منانے کی تجویز پیش کی جسے ٹریڈ یونینوں، سوشلسٹ پارٹیوں ، خواتین تنظیموں اور فنِ لینڈ کی پارلیمنٹ میں منتخب کردہ خواتین پر مشتمل 17ممالک سے آئی100 عورتوں سمیت کانفرنس نے مشترکہ طور پرمنظور کیا۔اس کانفرنس نے عورتوں کے ووٹ کے حق سے لے کر ان کے لیے زچہ و بچہ کی سہولیات بہم پہنچانے تک کا مطالبہ کیااور اس بات کی سختی سے مخالفت کی کہ محض جائیداد رکھنے والی عورتوں کو ہی ووٹ کا حق دیا جائے۔
8 مارچ ،1950 کی دہائی تک امریکہ میں عام تعطیل کی حیثیت سے منایا جاتا رہا۔ بعد ازاں سرد جنگ کے جنگجوؤں نے اُسے کمیونسٹوں کی یادگار کہہ کر منسوخ کرادیا ۔ بد ترین انداز میں اس کی شکل اور اس کا فلسفہ بگاڑا گیا ۔ اور پھر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ دن دوبارہ سے امریکہ میں منایا جانے لگا۔
اقوام متحدہ نے بھی1977میں اس دن کوعورتوں کے عالمی دن کی حیثیت سے منظور کرلیا۔ مگر اب اس میں سے ’’ مزدور ‘‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا۔ یوں یہ بے چہرہ دن ’’مزدور عورتوں کا عالمی دن‘‘ کے بجائے محض ’’ عورتوں کا عالمی دن ‘‘بن گیا۔ور یوں یہ پوری دنیا کی عورتوں کے لیے تجدید عہد کے لیے ایک تہوار کی طرح منایا جانے لگا۔ یہ دن نہ صرف ان خواتین کے کردار و عظمت کے اعتراف میں منایا جاتا ہے جنہوں نے اپنے حق کی خاطر آواز بلند کی۔ یہ دن منانا اس بات کے امکانات کو مزید روشن کرتا ہے کہ عورتوں کی تحریکوں سے ایک تو اس نظام کا تختہ الٹے گا اور سوشلزم کی بنیاد پر معاشرتی نظام مساوات کی دنیا قائم ہوگی جو کہ سماج میں عوام دوستی، جمہوری، اورمعاشی انصاف پر مبنی منفی تعصبات سے پاک رویوں کی بنیاد رکھے گی۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے