قریۂ معرفت جہاں تک ہے
منزل عشق بھی وہاں تک ہے
دِل کی دیوانگی یہ پوچھتی ہے
ہوش کی سلطنت کہاں تک ہے
صورت کا سلسلہ سماعت تک
بات کا ذائقہ زباں تک ہے
زیست کی بے کراں مسافت بھی
چند لفظوں کی داستاں تک ہے
اِک خسارہ ہے کاروبارِ حیات
سود کو واسطہ زیاں تک ہے
دِل بھی خائف نہیں ہے خطروں سے
یہ تصور تو جسم و جاں تک ہے
باکرامت ہے میرا رنگِ سُخن
یہ روایت بھی رفتگاں تک ہے