وہ دل میں ہی اترتا جا رہا ہے
تعلق روگ بنتا جا رہا ہے
وہ اقرار محبت کر رہا ہے
میرا شک اور بڑھتا جا رہا ہے
جنوں میں بے وجہ خاموش لہریں
سمندر اب کیوں چڑھتا جا رہا ہے
مرا افسانہۂ الفت ہے جھوٹا
مگر وہ پھر بھی پڑھتا جا رہا ہے
وہ بے خوف و خطر کودا تھا اس میں
مگر پھر بھی وہ ڈرتا جا رہا ہے
قفس پنچھی کو راس آنے لگا ہے
وہ اپنے پر کترتا جا رہا ہے
جو کہنے کو تو زندہ اور خوش ہے
وہ اندر سے ہی مرتا جا رہا ہے
جو ساون کی طرح برسا تھا خاورؔ
وہ بادل اب بکھرتا جا رہا ہے