تقریباََ ساٹھ پینسٹھ سال پہلے تک موجودہ پاکستان کے لوگ ہولی کے تہوار کا بڑی شدت سے انتظار کیا کرتے تھے اور اس خوشیوں بھرے تہوار کو سب مل کر مناتے تھے۔ قبل از تاریخ کے سب سے قدیم زرعی سماج یعنی سرائیکی اور سندھی علاقوں میں خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو رنگنے کا رواج آج بھی عام ہے۔ شہری آبادیوں کے غیرفطری کاسمیٹک ماحول کو چھوڑ کر دور دیہات کے زرعی سماج کو دیکھیں تو خوشی کے کسی بھی موقع پر رنگ پاشی ضرور کی جاتی ہے جس میں شادی بیاہ، بچے کی پیدائش، میلے ٹھیلوں پر کْشتی، کبڈی، بیلوں کی جوڑی کی دوڑ پر جیت کی خوشی، زمین یا جانور کی خریداری پر سب مل کر ناچتے گاتے ایک دوسرے کو رنگتے ہیں۔۔۔۔۔۔”شالا رنگ لگے، بھاگ لگن چوکھا تھیویں "۔۔۔۔۔۔ بچپن میں جب بھی کسی بزرگ بوڑھے سے سامنا ہوتا تو سب سے پہلے الفاظ جو کانوں میں پڑتے وہ یہی ہوتے جس کی اسوقت بلکل سمجھ نہیں آتی تھی۔
بنیادی طور پرانسان معاشروں کے اجتماعی تہواروں کی ابتدا مذہبی رسوم سے شروع ہوتی ہیں جس میں اکثرعقیدت پسندی کی اجتماعی عبادات ہیں مگر کْچھ اجتماعی رسومات کا تعلق عوام کے ثقافتی اظہاراورآپسی خوشی کے بیانیہ سے جْڑا ہے۔ اس میں موسموں، فصلوں کی کٹائی، بجائی ، مقامی ہیروز کے تہوار وغیرہ شامل ہیں جو میلوں کی شکل میں موجود ہیں۔ ہولی، موسم خزاں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے موسم بہار پھاگن مہینے کی پورنیما کو منایا جاتا ہے اور یہیں سے سال کی ابتدا بھی ہوتی ہے۔ یہ تہوار دو روز تک چلتا ہے۔ پہلے دن کو ‘‘ہولیکا’’ جلائی جاتی ہے جسے ‘‘ہولیکا دہن’’ بھی کہتے ہیں اور دوسرے دن کو ‘‘دھول وندن’’ کہا جاتا ہے۔
ہندوستانی قدیم معاشروں کی ابتدائی تشکیل میں بیشک مذاہب کا کلیدی کردار رہا ہے مگر جیت ہمیشہ بلآخر ثقافتی حسن کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آرٹ، ادب، فلسفہ اور دیگر علوم کے ارتقاء کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں صنعت و حرفت مں تبدیلی اور ترقی نمائیاں ہوئی ہے وہاں مذہبی تہواروں اور ثقافتی تہواروں کے درمیان ایک واضح بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
ہولی دراصل انسانی رشتوں میں پیار، محبت کے آپسی بندھن کا اظہار اور اسکی خوشی منانے کا تہوار ہے۔ہولی منانے کا تعلق صرف ایک ثقافتی رسم کو پورا کرنا نہیں ہے بلکہ اس میلے کو منانے کا مقصد اپنے ماضی میں کئے گئے غلط کاریوں کی معافی، ایک دوسرے کے ساتھ من مٹاؤ، کدورتیں نفرتوں کی توبہ، ایک دوسرے کو معاف کرنا اور خاندانوں میں نئے افراد کے اضافہ پر خوش آمدید کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
اب اگر ہولی کے تہوار کو قدیم تاریخی ماخذات کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں سوائے لوک قصوں اور بنیادی ملتان کے قدیم قلعہ پر واقع "پراہلادا” کے مندر کے سوا اور کوئی ماخذ نہیں ملتا اوران تاریخی حوالاجات کی روشنی میں ہولی کھیلنے یا منانے کا تعلق صرف ملتان کی جنم بھومی سے ہی بنتا ہے ۔ قدیم ملتان شہر جو کبھی ایک عظیم الشان سلطنت ہوا کرتا تھا جہاں سے وید اشلوک، عقائد، مذاہب، ثقافت، فلسفہ علم وہنر، ادب اور رسوم و رواج جنم لے کر پورے ہندوستان میں پھیل جاتے تھے وہیں سے ہولی کا تہوار ایک نیک دل عادل بادشاہ "پراہلادا” کے آگ کے دہکتے ہوئے الاؤ میں سے زندہ بچ جانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہاں ہمیں ایک نیک دل انصاف پسند عوام دوست دانش مند حکمران "پراہلادا” کا اپنی عوام سے گہرا تعلق دکھائی دیتا ہے جسکی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس واقع سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جس ہولی کے تہوار کو ملتان کی عوام نے سیکڑوں سال پہلے شروع کیا تھا وہ آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کی عوام کا خوشی کا بیانیہ اور اظہار بنتا چلا گیا جو آج کم و بیش یورپ، جنوبی و شمالی امریکا اورافریقہ کی ریاستوں میں بطور خوشی کے تہوار منایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ رنگ و نسل، قوم وطن، مذہب سے آزاد ایک اجتماعی بین الاقوامی خوشی کا یونیورسل بیانیہ اور اظہار بن چکا ہے۔