اطالوی کہانی
روم اور جینیوآ کے درمیان ایک چھوٹے سے سٹیشن پر کنڈکٹر نے ہمارے ڈبے کا دروازہ کھولا اور ایک میلے کچیلے ، کالک بھرے ، انجن میں تیل دینے والے کی مدد سے اس نے ایک مختصر سے کانے بوڑھے کو تقریباََ گود میں لے کر اندر پہنچایا۔
’’بہت ہی بوڑھا ہے!‘‘ وہ دونوں خوش طبعی سے مسکراتے ہوئے ہم آ واز ہو کر بولے۔
لیکن بوڑھا خوب چاق و چوبند ثابت ہوا ۔ اپنے جھریوں والے ہاتھ کی جنبش سے اپنے مددگاروں کا شکریہ ادا کر کے اس نے بشاشت آ میز شائستگی سے اپنے سفید بالوں والے سر پر پھٹا پرانا ہیٹ اتارا اور اپنی تیز آ نکھوں سے سیٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:
’’مجھے اجازت ہے؟‘‘
مسافر ایک طرف کو ہو گئے اور وہ اطمینان کا سانس لے کر سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ اپنے ہڈیالے گھٹنوں پر رکھ لئے اور وہ اپنے پوپلے منہ سے خوش طبعی کے ساتھ مسکرانے لگا۔
’’دور جا رہے ہو، بوڑھے بابا؟‘‘ میرے ساتھی نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں نہیں ، بس یہاں سے تین سٹیشن دور!‘‘ بوڑھے نے آ مادگی سے جواب دیا۔ ’’ میں اپنے پوتے کی شادی میں جا رہا ہوں ۔۔‘‘
چند ہی منٹ بعد وہ، پہیوں کی ہم آ ہنگ تال کے ساتھ ساتھ، ہمیں اپنی کہانی سنا رہا تھا اور ایک طوفانی دن میں ہلتی ہوئی ٹوٹی ڈالی کی طرح جھومتا جا رہا تھا ۔
’’میں لیگورین ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’ہم لیگورین بڑے ہٹے کٹے ، طاقت ور لوگ ہیں ۔ مجھے ہی لے لو ۔ میرے تیرہ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور میں نہیں جانتا کہ پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں کتنے ہیں ۔ اب یہ دوسرے کی شادی ہو رہی ہے ۔ اچھا ہے نا؟‘‘
اور ہم سب کو بہت فخریہ اپنی واحد آ نکھ سے دیکھتے ہوئے ، جو دھندلی ہونے کے باوجود ابھی تک ہنستی بولتی ہوئی تھی اس نے کہا:
’’دیکھو میں نے اپنے بادشاہ اور اپنے ملک کو کتنے بہت سے آ دمی دیے ہیں !‘‘
’’میری آ نکھ کیسے پھوٹی؟ اوہ یہ بہت دن پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت ٹانگ برابر کا چھوکرا تھا لیکن اس وقت بھی اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔ وہ انگوروں کے باغ میں مٹی کھود رہا تھا ۔ ہماری طرف مٹی سخت اور پتھریلی ہے اور بہت زیادہ محنت اور توجہ چاہتی ہے۔ اس وقت کدال کے نیچے سے ایک پتھر اچٹ کر ٹھیک میری آ نکھ میں آ لگا ۔ مجھے یاد نہیں کہ مجھے تکلیف کا احساس ہو ا تھا یا نہیں لیکن اس دن کھانا کھاتے ہوئے میری آ نکھ باہر نکل پڑی ۔وہ بہت ہی خوفناک چیز تھی! میرے گھر والوں نے اسے دوبارہ اندر گھسا دیا اور اس پر روٹی کی گرم گرم پلٹس باندھی لیکن سب کچھ بے کار ثابت ہوا۔ آ نکھ ختم ہو چکی تھی!‘‘
بوڑھے نے اپنے زرد لٹکے ہوئے گالوں کو خوب زور زور سے رگڑا اور ایک دفعہ پھر وہی شگفتہ خوش دلانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل گئی ۔
’’اس زمانے میں اتنے بہت سے ڈاکٹر نہیں ہوتے تھے جتنے آ ج کل ہوتے ہیں اور لوگ بے وقوفی سے زندگی بسر کرتے تھے ۔ ہاں ، بالکل ! مگر شاید وہ زیادہ نیک دل ، زیادہ مہربان ہوتے تھے ، ٹھیک ہے نا؟ ‘‘
اس وقت اس کے کانی �آ نکھ والے، چمڑے کے سے سخت چہرے سے، جس پر بہت گہری گہری جھریاں پڑی تھیں اور کائی کی طرح کے سبزی مائل سفید بال اگے ہوئے تھے، چالاکی اور فتح مندی جھلکنے لگی۔
’’جب کوئی میر ی سی لمبی عمر تک زندہ رہے تو وہ لوگوں کے متعلق جو کچھ سوچتا ہے وہ کہہ بھی سکتا ہے، کیا خیال ہے آ پ لوگوں کا؟‘‘
اس نے ایک سیاہ ٹیڑھی میڑھی انگلی اٹھائی جیسے کسی کو سرزنش کر رہا ہو۔
’’ میں �آپ کو لوگوں کے متعلق کچھ بتاتا ہوں ۔۔‘‘
’’جب میرا باپ مرا تومیں تیرہ بر س کا تھا اور جتنا اب ہوں اس سے بھی زیادہ چھوٹا تھا۔ لیکن میں بڑا چاق و چوبند لڑکا تھا او رکام کرنے میں بالکل ان تھک ۔ یہی تھا وہ کل سرمایہ جو مجھے باپ سے ورثے میں ملا تھا، کیونکہ ہماری زمین اور مکان تو قرض چکانے کے لئے بیچ باچ دئے گئے تھے ۔ سو اس طرح رہتا تھا میں ۔ ایک آ نکھ اور دو ہاتھ اور اللہ اللہ خیر سلا! اور مجھے جہاں کہیں اور جیسا بھی کام مل جاتا تھا میں وہی کر لیتا تھا۔۔۔ کٹھن ضرور تھی یہ زندگی مگر جوانی کٹھنائیوں سے بھلا کب ڈرتی ہے، ٹھیک ہے نا؟
’’انیس سال کی عمر میں میں اس لڑکی سے ملا جس سے پریم کرنا میرے مقدر میں لکھا تھا ۔ وہ بھی میری ہی جتنی غریب تھی لیکن وہ مجھ سے زیادہ مضبوط اور ہٹی کٹی تھی ۔ وہ بوڑھی اور بیمار ماں کے ساتھ رہتی تھی اور میری ہی طرح جو کام بھی مل جاتا تھا وہی کر لیتی تھی ۔ وہ کوئی خاص خوبصورت تو نہ تھی لیکن وہ دل کی نیک تھی اور بڑی عقل مند ۔ اور اس کی آ واز بڑی خوبصورت تھی۔ اور وہ کتنا اچھا گاتی تھی! بالکل ایک کلاکار کی طرح ۔ اور اچھی آ واز بڑی دولت ہے! اور میں بھی ایک زمانے میں برا نہیں گاتا تھا۔
’’آ ؤ ہم شادی کر لیں ؟ ، ایک دن میں نے اس سے پوچھا ۔
’’نہیں کانے ‘یہ بڑی بیوقوفی ہو گی‘‘!۔ اس نے رنجیدہ ہو کر جواب دیا۔ ‘‘ نہ تمہارے پاس کچھ ہے نہ میرے پاس۔ ہم گزارہ کس چیز پر کریں گے ؟
’’ او ر یہ بالکل سچ بات تھی ، ہم دونوں میں سے ایک کے پاس بھی ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ لیکن عاشق معشوق کو جوانی کے زمانے میں کس چیز کی ضرورت ہوتی ہےَ ؟ آ پ توخود ہی جانتے ہیں محبت کی ضروریات بہت تھوڑی ہوتی ہیں ۔ میں نے اصرار کیا اور جیت میری ہوئی ۔
’’ہاں شاید تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ آ خر کار میری عیدا نے کہا ’’ اگر اب، جبکہ ہم الگ الگ رہتے ہیں، مقدس ماں ، مریم ، ہماری مدد کرتی ہیں تو جب ہم ساتھ رہیں گے تو ان کے لئے ہماردی مدد کرنا اور کتنا زیادہ آ سان ہو جائے گا!‘‘
’’سو اس طر ح ہم پادری کے پاس گئے ‘‘۔
’’یہ بالکل پاگل پن ہے !‘‘پادری نے کہا۔کیا لیگوریا میں بھک منگوں کی کچھ کمی ہے ؟! بدقسمت لوگو ، شیطان کی ترغیبوں میں نہ پھنسو ورنہ تمہیں اپنی کمزوری کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا !،
’’ہماری بستی کے نوجوانوں نے ہماری ہنسی اڑائی ۔ بوڑھوں نے ہمیں بر ابھلا کہا۔ لیکن جوانی دیوانی توہوتی ہے اور اپنی طرح سے عقل مند بھی !۔ شادی کا دن آ ن پہنچا ۔ اس روز بھی ہم پچھلے روز سے زیادہ امیر نہیں تھے اور ہمیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ہم اپنی شب عروسی کہاں گزاریں گے ۔
’’چلو کھیتوں میں چلیں گے!، عیدا نے کہا ، کیا حرج ہے؟ خدا کی ماں تو سبھی لوگوں پر مہربان ہیں ، چاہے وہ کہیں ہوں‘‘ ۔
’’سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ دھرتی کو اپنا بچھونا ااور آ سمان کو اپنا پلنگ پوش بنائیں گے ۔
’’اور اب ایک اور کہانی شروع ہوتی ہے ! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ غور سے سنئے کیونکہ یہ میر ی اتنی بڑی عمر کی بہترین کہانی ہے!
’’ہماری شادی سے ایک روز پہلے ، صبح سویرے بوڑھے گیووانی نے، جس کے لئے میں نے بہت کافی کام کیا تھا، مجھ سے زیر لب ، بد بد ائے ہوئے کہا۔۔۔ کیونکہ وہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔
’’او گو، تمہیں بھیڑ بکریوں کا پرانا باڑا صاف کر لینا چاہیے ۔ وہاں کچھ صاف پیال بچھا دو۔ وہ خشک ہے اور سال بھر سے زیادہ عرصے سے بھیڑیں وہاں نہیں رکھی گئیں ہیں لیکن اگر تم اور عیدا وہاں رہنا چاہتے ہو تو اسے صاف ہی کر لینا بہتر ہے‘‘۔
’’اور لیجئے ہمارے پاس گھر بھی ہوگیا!
’’جس وقت میں بھیڑ وں کے باڑے کو صاف کرنے میں مشغول تھا، اور ساتھ ہی ساتھ گاتا بھی جا رہا تھا، تو دروازے پر کوستیانزیو بڑھئی آ کھڑا ہوا اور پوچھنے لگا:
’’تو تم اور عیدا یہاں رہو گے ؟ لیکن تمہاراپلنگ کہاں ہے؟ میرے یہاں ایک زائد پلنگ پڑا ہوا ہے ۔ صفائی کر چکو تو آ کر لے جانا ۔
’’جب میں اس کے پاس جا رہا تھا تو بد مزاج ماریا جس نے ایک دکان کھولی رکھی تھی، چیخ کر بولی:
’’شادی کر رہے ہیں بے وقوف کہیں کے اور گھر میں تکئے کے غلاف اور چادر کے نام دھجی بھی نہیں !۔ تم بالکل ہی پاگل ہو، کانے! ۔خیر اپنی دلہن کو میرے پاس بھیج دینا ۔۔۔،
’’اور لنگڑا ایتورے ویانو جو ہمیشہ گھٹیا اور بخار کا شکار رہتا تھا، اپنی دہلیز پر کھڑے چلا کراُ س سے کہنے لگا:
’’اور ذرا اس سے یہ تو پوچھو کہ اس نے مہمانوں کے لئے کتنی شراب مہیا کی ہے؟ اوفوہ ، لوگ اتنے لا پرواہ کیسے ہو سکتے ہیں !، ‘‘
بوڑھے کے گالوں کی گہری جھریوں میں سے ایک کے اندر ایک تا بندہ آ نسو چمکنے لگا، اس نے اپنا سر پیچھے ڈال دیا اور ایک بے آ واز ہنسی ہنسنے لگا ، اس کا نوکیلا کنٹھا ہل رہا تھا اور اس کے چہرے کی لٹکی ہوئی کھال کانپ رہی تھی۔
’’اوہ ، دوستو !‘‘ ۔اس نے طفلانہ مسرت سے ہاتھ ہلاتے اور ہنسی سے بے تاب ہوتے ہوئے کہا ’’شادی کی صبح ہمارے پاس وہ سب کچھ تھاجس کی گھر کے لئے ضرورت ہوتی ہے ۔ کنواری مریم کا ایک مجسمہ ، برتن ، چادریں ، غلاف ، فرنیچر ، غرض ہر چیز موجود تھی۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں ! عیدا رو رہی تھی اور ہنس رہی تھی۔ اور میں بھی ۔ اور دوسرے سب لوگ ہنس رہے تھے۔ کیونکہ شادی کے دن رونا منحوس ہے، اور ہمارے اپنے آ دمی ہم پر ہنس رہے تھے!
’’ لوگوں کو اپنا کہنے کا حق رکھنا ۔۔۔ یہ بہت ہی خوشگوار بات ہے ! اور لوگوں کو اپنا عزیز اور قریب اور پیارا محسوس کرنا اس سے بھی بہتر بات ہے۔ ان لوگوں کو جن کے نزدیک آ پ کی زندگی ایک مذاق نہیں ہے اور آ پ کی مسرت ایک کھیل نہیں ہے!
’’اور کیا زور دار شادی تھی وہ بھی !۔ کیا بڑھیا دن تھا وہ! ۔پوری بستی کے لوگ اس تقریب میں شریک ہوئے اور ہر شخص ہمارے اس بھیڑوں کے باڑے میں آ یا جو یکبارگی ایک عالی شاں محل ہو گیاتھا۔۔۔ ہمارے پاس سب کچھ تھا! شراب اور پھل ، گوشت اور روٹی ، اور ہر شخص نے خوب کھایا پیا اور ہر ایک مست اور سر خوش تھا۔۔۔ یہ، اس وجہ سے تھا کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے سے بہتر اور زیادہ بڑی مسرت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ میرا یقین کیجئے اس سے زیادہ عمدہ چیز اور کوئی نہیں ہے!
’’اور پادری بھی آئے ۔ انہوں نے بڑی اچھی تقریر کی۔ انہوں نے کہا، یہاں دو آدمی ہیں جنہوں نے آ پ کو ان کی زندگیوں کا بہترین دن بنانے کے لئے اپنے حتی المقدور سب کچھ کیا۔ اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے تھا، کیونکہ انہوں نے آپ کے لئے کام کیا ہے اور کام تانبے اور چاندی کے سکوں سے زیادہ اہم چیز ہے، کام ہمیشہ اس اجرت سے زیادہ اہم ہوتا ہے جو کام کرنے والوں کو ملتی ہے! ۔روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے ، مگر کام دائم و قائم ہے۔۔۔ یہ لوگ خوش دل اور منکسر مزاج ہیں ، ان کی زندگی کٹھنائی میں گزری ہے مگر یہ کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے، آ ئندہ ان کی زندگی اور بھی سخت ہو گی مگر یہ آ ئندہ بھی شکایت نہیں کریں گے۔آ پ لوگ ان کی ضرورت کی گھڑی میں ان کے آ ڑے آ ئیں گے۔ ان کے پاس اچھے دست وبازو ہیں اور ان سے بھی اچھے دل ہیں ۔ ‘‘
’’اور انہوں نے میرے اور عیدا کے اور پوری بستی کے لوگوں کے متعلق بہت سے تعریفی کلمات کہے!‘‘
بوڑھے نے اپنی اس آ نکھ سے جو ایک دفعہ پھر جوان ہو گئی تھی، ہم سب کو دیکھا :
’’لیجئے، دوستو ، میں نے آپ کو لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیا ہے۔ اچھا مزے دار قصہ تھا نا؟‘‘