ٹرین میں بیٹھی کھڑکی سے سر ٹکائے وہ باہر دیکھ رہی تھی۔ پٹڑیاں کبھی دور ہوتی، کبھی ملتی ،بڑی تیزی سے دور بھاگ رہی تھیں۔ سحاب نے ذراسی پلکیں اٹھائیں۔ دور تک نظر چلتی چلی گئی۔ درخت، پہاڑ، لوگ سب کچھ ، سب ہی کچھ بڑی تیزی سے پیچھے بھاگ رہے تھے، دور ہوتے چلے جا رہے تھے۔
ِ ’’ کیا زندگی بھی ایک ایسا ہی سفر ہے؟‘‘ وہ سوچنے لگی؛ ’’جس میں ہر چیز، ہر انسان، ہر یاد یہاں تک کہ ہر رشتہ بڑی تیزی سے بھاگ رہے ہیں، دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔صرف اپنا آپ باقی رہتا ہے، اپنا ہی ساتھ رہتا ہے بس! اور کبھی کبھی تو اپنا آپ بھی خود سے کہیں کھو جاتا ہے۔‘‘
ٹرین شایدکسی اسٹیشن پر رکی ۔ایک شور اٹھا ہر طرف؛’’ چائے لے لو چائے، کھانا بھئی کھانا، کی ہوُ ہا ،تھی۔‘‘ قلی تیزی اور پھرتی سے لوگوں کا سامان اتار اور چڑھا رہے تھے۔ ایک اخبار والا اخبار اور رسالے بیچنے کی ہانک لگا رہا تھا۔ سحاب نے ایک رسالہ خریدا اور چائے کی طلب کے ساتھ ایک چائے والے کوگرم چائے لانے کو کہا،جو وہ چند ہی منٹ بعد لے آیا۔ پلیٹ فارم پر ایک ٹک شاپ کے قریب لگے نلکے سے مسافر بوتلوں میں پانی بھر رہے تھے۔ وہیں سے ایک خوبرو جوان منہ ہاتھ دھو کربالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اٹھا۔ایک دم سے سحاب اور اس کی نظریں ملیں تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی اور سحاب کا ہاتھ لرز گیا۔ گرم گرم چائے اس پر گری ۔ اس کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی اور اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے جیب سے ایک سفید ٹشو نکال کر سحاب کی جانب بڑھایا ،جو اس نے خاموشی سے لے لیا۔ ٹرین نے وسل دی اور آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑنے لگی۔
اور پھر تو وہ ہر سٹیشن پر اپنی دل نشیں مسکراہٹ لیے نظر آتا رہا۔
لاہورسٹیشن پر بیگ سنبھالتے ہوئے وہ ٹرین سے اتری اور پھر اس مقامی ہوٹل پہنچی جہاں واک میں شرکت کے لیے چاروں صوبوں سے آنے والے افرادکی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔استقبالیہ سے چابی لے کر وہ اپنے کمرے میں پہنچی۔تازہ دم ہوئی اور لیٹ گئی کہ رات آٹھ بجے ہال میں واک سے متعلق بریفنگ ہونا تھی۔
آٹھ بجے تیار ہو کر اس نے ہال کا رخ کیا۔ کونے والی میز کی طرف جانے لگی کہ اسے دوسری میزپہ سفید ٹشوز کا ایک ننھا سا پیکٹ نظر آیا۔دل ایک خوش گوار انداز میں دھڑکا۔
کوئی مانوس سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے ایک دم سے آواز کی جانب گھوم کر دیکھاتو وہ چہرے پر ایک خوب صورت مسکراہٹ سجا ئے کسی سے بات کر رہا تھا۔سحاب ٹشو کا پیکٹ اٹھا کر اسی ٹیبل پر بیٹھ گئی۔
تب ہی اسے پتہ چلا کہ اس کا نام شیراز تھا ۔
بریفنگ کے مطابق انھوں نے فجر کے بعد سکردو کے لیے نکلنا تھا۔ ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ انتظامیہ کے اراکین کی آواز آئی کہ سب جلدی سے تیار ہو کر اپنا اپنا سامان بسوں میں رکھوا کر خود بھی بیٹھ جائیں تاکہ سکردو وقت پہ پہنچ سکیں۔
دورانِ سفر ساری لڑکیوں میں دوستی ہو گئی اور یوں گپ شپ اور ہنسی مذاق کرتے ہوئے وہ سب شام پانچ بجے سکردو پہنچ گئے ۔ مگر کوشش کے باوجود بھی پولو میچ نہ دیکھ سکے۔ ریسٹ ہاؤس کے وسیع لان میں ملک بھرسے آئے ہوئے طلباکے لیے کیمپ لگا۔شام کی چائے سب نے ایک ساتھ کچن ٹینٹ میں پی۔رات کے کھانے کے بعد ایک اجلاس ہوا، جس میں بتایا گیا کہ کل سکردو کے بازار میں، ہسپتالوں، دوکان داروں اور راہ گیروں میں پانی کے بچاؤ سے متعلق کام کرنا تھا اور ان میں پمفلٹس تقسیم کرنے تھے۔
کھانے اور اجلاس سے فارغ ہو کر سحاب کیمپ آئی ۔ ٹینٹ میں اس کے ساتھ دیگر صوبوں سے آئی ہوئی لڑکیاں بھی تھیں۔ دن بھرکے سفر نے اسے تھکا دیا تھا، اس لیے تھوڑی سی گپ شپ کے بعد وہ سونے کی تیاری کرنے لگی۔ کیمپ کے ماحول اور سلیپنگ بیگ میں اس کا رات گزارنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ سلیپنگ بیگ میں سرکتے ہوئے اور اس کی زپ بند کرتے ہو ئے اس نے آنکھیں بھی بند کر لیں۔
سحاب کو ایک عجیب سے سکون ، تحفظ اور آزادی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کی روح یک گونہ آزادی محسوس کر رہی تھی۔
’’کیا پکے گھر ، اونچی دیواریں روح کو محصورنہیں کر لیتیں؟ کہا جاتا ہے ،پکے گھر انسان کو تحفظ دیتے ہیں، محفوظ رکھتے ہیں، توپھر کیوں مجھے ترپال کا یہ ٹینٹ جس کی کھڑکی ہوا کے زور سے گاہے بگاہے پھڑ پھڑا رہی ہے، لیکن پھر بھی میری روح میرے ذہن کو ایک soothing effect دے رہی ہے۔۔۔‘‘، سحاب مسلسل سوچ رہی تھی۔۔۔’’یا پھر شاید سفر میں جوں جوں انسان اپنی جائے رہائش سے دور ہوتا چلا جاتا ہے تو اس کا ذہن شاید اسے وقتی طور پر دھوکا دینے لگتا ہے کہ شاید حالات بدل گئے، پریشانیاں ختم ہو گئیں۔ ورنہ پکی عمارت اور ٹینٹ میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔‘‘
خیر ،جو بھی ہو لیکن اس وقت کیمپ کے اس ٹینٹ میں سحاب سلیپنگ بیگ میں لیٹی سکون کی آخری حد کو چھو رہی تھی۔
اگلے دن ایک قافلے کی صورت میں چار بسوں نے سکردو بازار جانا تھا۔سحاب جیسے ہی بس میں سوار ہوئی تھی کہ پہلی ہی نشست پر اسے ننھا پیکٹ نظر آیا ۔اس کا دل ایک عجب سے انداز میں دھڑکا ۔اسے اپنی حالت سمجھ نہیں آئی کہ اسے کیا ہوا ہے۔
وہ جلدی سے اسی نشست پر بیٹھ گئی۔ بازار میں سب لوگ گروپ میں تقسیم ہو گئے اور شہر کے ہسپتالوں، سکولوں اور بازار میں پانی کو صاف رکھنے اور پانی کو ضائع کرنے سے منع کرنے کے پمفلٹ تقسیم کیے اور ساتھ ساتھ دوکان داروں اور راہ گیروں کو بھی اس موضوع پر بتاتے رہے۔
شام کو دیوسائی کا پروگرام تھا اور یہ سفر جیپوں میں کرنا تھا۔
دریائے سندھ کے کنارے کنارے سفر کا یہ پہلا موقع تھا۔ ایک عجیب سا احساس اسے گھیرے ہوئے تھا۔ ایک حیرت اس کی اداس آنکھوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ جوں جوں سفر طے ہوتا گیا، پانی کا رنگ بدلتا گیا۔ ایک ہی پانی کہیں نیلا، کہیں ہرا۔ کہیں پہاڑ کہیں میدان اور کہیں پھر سے دریائے سندھ نظر آنے لگتا۔ سحاب سوچنے لگی ، ’’کیا ہر تبدیلی کے ساتھ انسانوں کے مزاج بھی بدلتے ہوں گے؟ کوئٹہ سے لاہور، پھر سکردو اور پھر کراچی تک، کیا ہر علاقے کے لوگوں کا مزاج ، ان کی سوچ ایک طرح ہوتی ہوگی؟ ہر جگہ کی مٹی، پانی، آب وہوا کچھ تو اپنا جداگانہ اثر رکھتی ہوگی!‘‘
سوچتے سوچتے اس کا ذہن شیراز کی طرف چلا گیا اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ کھلنے لگی۔ اسے اپنی حالت پر حیرت ہو رہی تھی۔ اس نام کے ساتھ ہی اس کے اندر کیا ہونے لگتا ہے۔ کہیں اسے شیراز سے محبت تو نہیں ہو گئی؟!۔۔۔اور اس سوچ کے ساتھ ہی وہ کانپ سی گئی۔
بشام کے رعنا لاؤنج میں پانی بچاؤ اور دریائے سندھ کے پانی کو صاف رکھنے پر ایک سیمینار ہونا تھا، اس موضوع پر تقریریں ہوئیں۔ علاقہ ناظم اور دیگر عوام نے اس سیمینار میں شرکت کی۔
رات بشام میں گزری۔
صبح پو پھٹے سمے سحاب کی آنکھ کھلی۔ ٹھنڈی اور یخ پہاڑیوں میں ایک ٹھنڈا میٹھا سکون تھا۔ سبزے کی باس فضا میں بکھر کر سانسوں کو معطر کر رہی تھی۔ اس نے اس حسین صبح کو اپنے اندر سمیٹنے کے لیے باہر کا رخ کیا۔ دریائے سندھ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ بہتا ہوا نظر آیا۔ سحاب کو جانے کیا ہوا، اس نے ایک دوڑ لگا دی اور حیرت سے دور تک دریا کا نظارہ کرنے لگی۔ اس ٹھنڈی پرسکون خاموش صبح نے پانی کے ساتھ مل کراس پر ایک عجیب سا اثر کرنا شروع کر دیا ۔ اس نے پھر ایک ہلکی سی دوڑ لگا دی اور پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دریا کے کنارے بیٹھ گئی۔ پانی سحاب کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ایک لمحے کو اسے یوں لگا کہ وہ آہستہ آہستہ لمحہ لمحہ اس میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ پانی کی یہ مقناطیسی کشش کہیں اسے اپنی طرف کھینچ ہی نہ لے۔۔۔گھبرا کر وہ اٹھی اور پھر ایک دم ریسٹ ہاؤس کی جانب دوڑ لگا دی۔
اس کی سانس پھول گئی ۔ اسے کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟ وہ حیران تھی۔ تھک کر ایک لمبی سانس لے کر ،زیر لب خود سے پوچھنے لگی،’’ کیا مجھے شیراز سے محبت ہو گئی ہے؟‘‘اور اس کے دل کا جواب اثبات میں ملا تو وہ ایک دم پرسکون ہو گئی اور مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
’’محبت تو بارش کی مانند ہے جو زندگی ہے اور جو کائنات کے ذرے ذرے پر برس کر پوری فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ محبت تو امن و سکون کا نام ہے۔ محبت جو ایک آفاقی جذبہ ہے تو امن وسکون بھی آفاقی ہونا چاہیے۔محبت میں خوش رہو اور اسے ضرب دے کر تقسیم کرتی جاؤ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ خود سے ہی باتیں کیے جا رہی تھی۔
اور پھر ہری پور سے ہوتے ہوئے وہ داؤد خیل پہنچے۔ کنال ریسٹ ہاؤس میں انھوں نے رکنا تھا۔ اور پھربتایاگیا کہ شام کو ریسٹ ہاؤس کے وسیع لان میں بار بی کیو کا پروگرام تھا۔شام کو سحاب تیار ہو کر باقی لڑکیوں کے ساتھ لان میںآئی۔ چاند کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔چاندنی کی ٹھنڈک اور با ربی کیو کی مسحور کن خوشبونے ایک حسین ماحول بنایا تھا۔ سحاب نے چاند کی سفیدی ہی کی طرح سفید سوٹ پہنا۔ چوڑیاں پہنی اور ننھے ننھے بندے بھی جو اس کے گالوں سے ا ٹکھیلیاں کر رہے تھے۔وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سب کے ساتھ آ بیٹھی۔
باتیں کرتے کرتے اسے اک عجیب سی الجھن نے آگھیرا ۔
جلد ہی اسے اندازہ ہوا کہ شیراز اسے مسلسل دیکھ رہا تھا۔ وہ پریشان کن انداز میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
اچھا ہوا کہ کھانا شروع ہوا، وہ جلدی سے کھانا لینے اٹھی۔
سحاب! کھانا کھانے کے بعد سحاب باتیں کرتے ہوئے دوسری جانب اپنے کمرے کی طرف چلی تو پیچھے سے شیراز نے آوازدی۔
’جی !‘سحاب نے مڑ کر دیکھا۔
’’اگر کوئی کام نہیں ہے تو آؤ تھوڑی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ شیراز نے برآمدے میں رکھی کرسیاں کھلے آسمان تلے کھینچتے ہوئے کہا۔
’’جی کیوں نہیں‘‘ وہ بھی کرسیوں کی طرف جاتے ہوئے بولی۔
اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد ایک دم سے خاموشی چھا گئی جو کافی دیر رہی، جس سے سحاب کوالجھن ہونے لگی۔
اس نے پلکیں اٹھا کر شیراز کی طرف دیکھا۔
’’ تمہاری آنکھوں کی اداسی دیکھ کر میں حیران ہوں۔ اتنی اداسی؟ اس قدر اداسی؟! یہ دل بار بار مجبور کرنے لگا ہے ان آنکھوں کو دیکھنے کے لیے ۔‘‘
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ پھر کہنے لگا ، ’’ مجھے تمہاری آنکھوں سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔! مجھے تم سے محبت ہو گئی!!‘‘
سحاب کو ایسی باتوں پر پتہ نہیں کیوں ہنسی آجاتی تھی، اس نے ایک دم سے ہنسنا شروع کر دیا۔
شیراز چند لمحے حیرت سے اسے دیکھنے لگا اور پھر خود بھی اس کے قہقہے سحاب کے قہقہوں میں شامل ہو گئے۔
رحیم یارخان، سکھر، حیدرآباد میں پریس کانفرنس،سیمینار اور پمفلٹس تقسیم کرتے ہوئے وہ ٹھٹھہ پہنچے، جہاں انھوں نے کینجھر جھیل کے ریسٹ ہاؤس میں رہنا تھا۔سامان رکھ کر سب آس پاس گھومنے نکلے ۔ چلتے چلتے وہ دونوں دوسرے ریسٹ ہاؤس جا پہنچے ،جہاں ان کے باقی آدھے ساتھی تھے۔ شام کی چائے سب نے وہیں پی اور پھر رات کے کھانے کے بعد موسیقی کا پروگرام تھا ۔ مقامی گائیکوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔ گپ شپ ہوتی رہی اور پھر وہ اپنے ریسٹ ہاؤس چلے آئے۔
اپنے کمرے میں جاتے ہوئے شیراز نے دروازے میں رک کر سحاب کو آواز دی،’’ سحاب، کل کا سورج میں اور تم ایک ساتھ طلوع ہوتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے میں چلا گیا اور سحاب مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
سحاب کا موبائل فون بجنے لگا ۔اس نے ہڑبڑا کر فون اٹھایا شیراز کی کال تھی۔
’’جی‘‘، سحاب نے کہا۔
’’باہر آؤ جلدی سے، سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھیں گے‘‘، اور فون بند کر دیا۔
سحاب نے واش روم جا کر پانی کے چھپاکے منہ پر ڈالے، دوپٹہ کھینچ کے گلے میں ڈالا اور باہر نکل گئی۔ جہاں شیراز اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ بے چینی سے اس کی طرف بڑھا۔’’کہاں رہ گئی تھی ، آؤ نا!‘‘
سحاب اس کے پیچھے چل دی۔ شیراز نے اسٹل کیمرہ ایک چھوٹی سی دیوار پر رکھا اور طلوع ہوتے سورج کے شاٹس لیتا رہا۔ اس نے سورج کے ساتھ ساتھ سحاب کا بھی ایک فوٹو لیا،جس کے پیچھے سورج طلوع ہو رہا تھا۔
سحاب اُس روز بہت اداس سی تھی اور یہ اداسی شیراز نے واضح طورپر محسوس کی۔
’’کیا ہواسحاب؟ تمہاری طبعیت ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں ٹھیک ہوں۔ ‘‘پھر کافی دیر خاموشی رہی تو شیراز نے دوبارہ پوچھا ،’’کیا ہوا؟‘‘
’’شیراز، سوچتی ہوں کہ کاش زندگی ایک پزل(Puzzle)ہوتی۔بلاکس غلط جڑ جانے کے بعداسے دوبارہ کھول کر ایک بار پھرایک نئی ترتیب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا۔ کاش ایسا ہوتا تو میری زندگی کے پزل کو مکمل کرنے کے لیے ایک بلاک تمہارا ہوتا۔‘‘
’’تم ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو سحاب؟ ‘‘شیراز نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’شیراز میں نے سوچا ہے کہ میں تمھیں بتا دوں کہ میری منگنی وٹہ سٹہ میں ہو چکی ہے ۔ ‘‘سحاب نے بڑی مشکل سے رک رک کر بتایا اور خاموش ہو گئی۔
شیراز کافی دیر تک حیرت اورخاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر دوسری جانب منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔سحاب بھی اسی خاموشی سے کچھ دیر کھڑی رہی اور پھر کمرے میں چلی گئی۔ دونوں کے اندر ایک ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔دونوں ہی ایک آزمائش سے گزر رہے تھے۔دونوں ہی خاموش تھے۔
اگلے روز قافلہ کراچی کی اَور چل پڑا جو اس واک کا آخری پوائنٹ تھا اور جہاں آخری سیمینار منعقد ہونا تھا۔سحاب اپنی تقریر کی تیاری کر رہی تھی کہ شیراز آگیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔دونوں ایک دوسرے سے بات کیے بنا خاموشی سے بیٹھے رہے۔
کافی دیر بعد شیرازنے کہا ، ’’کیا محبت ملنے اور بچھڑنے کی قید سے آزاد نہیں ؟کیا محبت کا حصول دو جسموں کاملن ہے؟کیا محبت کو جسموں کے حصول میں قید کر کے ہم اسے محدود نہیں کر رہے سحاب؟ ‘‘شیراز نے سحاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،جو جواب دیے بغیر کاپی پر جانے کیا آڑی ترچھی لکیریں کھینچتی رہی۔
شیراز لمبی سانس کھینچتے ہوئے جیسے خود سے کہنے لگا، ’’محبت تو ان ساری چیزوں سے بالا تر ہے ۔۔۔محبوب تو چاہے دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو ۔۔۔وہ میرا محبوب ہے اوراس سے میری محبت قائم رہے گی۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعدوہ پھر سے کہنے لگا،’’ سحاب جو تم کہہ رہی تھی نا کہ زندگی ایک پزل ہوتی اور بلاکس غلط جڑ جانے کے بعد دوبارہ ایک نئی ترتیب سے جوڑا جا سکتا؟تمہارا کیا خیال ہے سحاب، کیا قدرت نے ہمیں موقع نہیں دے دیا کہ ہم ایک دوسرے کی زندگیوں کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں! کیا ہماری زندگی میں محبت کے بلاکس نہیں لگ گئے۔۔۔؟ جس نے ہماری زندگی کو مکمل کر دیا؟؟ اور پھر تم ہی تو کہتی ہوکہ محبت امن و سکون ہے ۔۔۔! ‘‘
شیراز نے سحاب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے کہا تو سحاب کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔
آخری سیمینار کے بعدسب واپسی کے لیے اپنے اپنے شہروں کا رخ کرنے لگے۔
چھبیس دنوں کی اس لمبی واک کے اب بس چند لمحے ہی رہ گئے تھے۔ سب لوگوں کو ایک دوسرے کی عادت سی ہو گئی تھی ۔ جدا ہونے کے خوف سے پریشان ہو جاتے تھے۔ ایسے میں سحاب سوچنے لگتی کہ کیا سفر انسان پر اس قدر اثر انداز ہوتا ہے کہ ارد گرد کا ماحول، ہم سفر، تیزی سے گزرتے مناظر۔۔۔ فضا سب کچھ بندے کے اندر یوں تحلیل کر جاتی ہے،جیسے گرم بھاپ اڑاتی چائے میں شکر۔۔۔جو نظر تو نہیں آتی لیکن چائے میں اپنا بھرپور اثر چھوڑ جاتی ہے۔
اور پھر آخری ملاقات میں بھی دونوں خاموش رہے۔۔۔ بس شیراز نے خاموشی سے اس کے پرس میں کچھ ڈال دیا۔
واپسی کا کوئٹہ تک کا سفر ، بہت خالی خالی سا تھا۔
گھر پہنچ کر تھکے ہوئے انداز میں بیٹھی پرس کھولا تو سامنے ہی ٹشو کا پیکٹ پڑا تھا ۔
وہ سوچنے لگی کہ صاف کرنے سے کیاواقعی سفر کی دُھول صاف ہو جاتی ہے؟!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے