تصنیف: اجیت کور

خانہ بدوش اجیت کور کی آپ بیتی ،مگر اس کو جگ بیتی بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔کیوں کہ یہ ایک ایسی دنیا کا احوال ہے جسے ہم روز دیکھتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے درد بھرے پہلؤں پر روشنی ڈالتی اجیت کور کی آپ بیتی ، آپ بیتی اس عورت کی جو خودی کے فلسفے پر یقیں رکھتی ہے مگر تنہا ہے۔ آپ بیتی اْس عورت کی جو اپنی زندگی کی تنہائی سے دور بھاگنا چاہتی ہے۔ اجیت کور کی یہ تصنیف اسی تنہائی سے دور بھاگنے کی ہی ایک کوشس لگتی ہے کیونکہ یہ تنہا انسانوں کی تنہائی بانٹنے والی اور اْن کو اپنے غم میں شامل کرنے والی تصنیف ہے۔ایک ایسی تصنیف جس کے پڑھنے والا اپنے ہی دل کے کسی کونے میں گْم ہو جاتا ہے۔یہ انسان کو سوچنے پرمجبور کر دیتی ہے اور انسان سوچتا ہی چلا جاتا ہے کبھی محبت ، کبھی وفا اور کبھی معاشرتی رویوں کے بارے میں۔ محبت اور وفا کی بات کریں تویہ ماں اور بیٹی کے رشتے کی تصویراوراس کی جدائی کی درد ناک داستان ہے۔ جو درد اجیت کی زندگی سے نہ ختم ہونے والادرد ہے اور وہ ہمیشہ اْس کی آگ میں جلتی ہے۔ اگر اس درد کو دیکھا اور،محسوس کیا جائے تو یہ کہنا غلط تو نہیں کہ درد ہی زندگی کا آخری سچ ہے۔
اگر معاشرتی رویوں کی بات کریں تویہ تصنیف ایک عورت کے ساتھ معاشرے کے رویے کی عکاس ہے۔ جس میں معاشرے کا مردگدھ ہے اور عورت کو مردار سمجھ کر اْس کا گوشت نوچنے کے لیے ہر دم تیارہے۔ یہ اْس معاشرے کی المناک داستان ہے جس میں ہوا کی بیٹی بیمار ہو کر دم توتوڑ سکتی ہے مگراْس کاعلاج صرف اس لیے نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ بوجھ ہے۔ یہ اْس معاشرے کی داستان ہے جس میں ابنِ آدم ہوس کو چاہت کا نام دے کر حوا کی بیٹی کا دامن جلاتا ہے اور اْس کو تنہائی میں مرنے کے لیے چھوڑجاتاہے۔ اگر معاشرتی رویے ایسے ہوں تو یہ کہنا غلط تو نہیں کہ درد ہی زندگی کا آخری سچ ہے۔
اس تصنیف میں گھر سے بے گھر ہونے اور بے گھر ہونے کے بعدخانہ بدوشی کی سی زندگی بسر کرنے کی داستان بھی ہے۔ کہنے کو تو یہ اجیت کی آپ بیتی ہے مگر یہ پنجاب کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کی عکاسی ہے۔ تب ہی تو اس کو میں نے جگ بیتی کا نام دیا۔یہ اْس زمانے کی بات ہے جب پنجاب کو چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ آزادی کے نام پر تقسیم جس تقسیم کے نتیجے میں ملک تو آزاد ہو گئے ہیں مگر انسان آج بھی غلام ہے، نفسیاتی غلام، مذہبی غلام، لسانی غلام۔ تو ایسے معاشرے میں یہ کہنا غلط تو نہیں کہ درد ہی زندگی کا آخری سچ ہے۔ پنجابی کے شاعر بابا بھلے شاہ نے کیا خوب کہا تھا کہ۔
گل سمجھ لئی تے رولا کی
اے رام رحیم تے مولا کی
بابابھلے شاہ کی بات کوہی مان لیا جاتا تو پنجاب تقسیم نہ ہوتا، اجیت کو خانہ بدوشی کی زندگی نہ گزارنی پڑتی لوگوں کو بے گھر نہ ہونا پڑتا۔آج بھی معاشرہ اگر اْ ن کی یہ بات سمجھ جائے تو امن اور سکون کا گہوارا بن سکتا ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ ایسا ہو گا اور ہمارے معاشرتی رویے بدلیں گے کیوں کہ۔
عشق میں اس قوم کے جیسے کئی فرہاد
اس سوچ میں ہیں قید کہ دھرتی رہے آزاد
دشمن تو ہے دشمن ہوے اب دوست بھی صیاد
قائم ہے مگر عزم ابھی صورتِ فولاد۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے