جو تخت سے پھراتررہے ہیں
فرشتہ بن کر جو آرہے ہیں
ہمارے کھاتے سے قرض لے کر
ہماری دولت ہمارے کاسوں
میں بھیک دے کر جو بھر رہے ہیں
وہ ظالموں کے نڈر ملازم
ہمارے حاکم ہیں اُن کے خادم
ہمارے آقا ہیں اُن کے نوکر
چلارہے ہیں دکان اُن کی
وہ خوب پیسہ کمارہے ہیں
امیر ملکوں کو جارہے ہیں
ہماری تعلیم ختم کرکے
پرائے ملکوں میں اپنے بچے
ہمارے زر پر پڑھارہے ہیں
وہ سازشیں کرکے کشت وخوں کی
کسی کو منکر کسی کو کافر
کسی کو کہتے ہیں اچھا مومن
ہمی پہ فتوے لگارہے ہیں
ہمارے ہاتھوں میں تیغ دے کر
ہمی کو کٹوائے جارہے ہیں

خود اپنی عیار خصلتوں سے
خود اپنے ظلم و ستم سے حاکم
سبق بغاوت کا دے رہے ہیں
وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں

عجیب و یران یہ جہاں ہے
عجیب سونا سایہ سماں ہے
نہ کوئی لَے ہے نہ کوئی آہنگ
بے رنگ دنیا بے رنگ محفل
عجیب گردش عجب زمانہ
ہر ایک آدم ہو جیسے میت
مرا ہوا ہے گلا ہوا ہے
سڑا ہوا ہے کھڑا ہوا ہے
اٹھا کے اپنا جنازہ خود ہی
خود اپنی ٹانگوں پہ چل رہا ہے
وہ پانی بن کرکے کہاں کہاں سے
رواں دواں ہے یہاں وہاں سے
حسین دنیا کے خواب لے کر
وہ جنتوں کے سراب لے کر
وہ آدھی مخلوق آدھے انساں
وہ آگِ دوزخ میں جل رہے ہیں
عوام بن کر بھگت رہے ہیں
خود اپنی میت پہ رو رہے ہیں
وہ سوگ بن کر وہ روگ بن کر
تڑپ رہے ہیں بلک رہے ہیں
وہ جیتے جی مرتے جارہے ہیں

خود اپنی عیار خصلتوں سے
خود اپنے ظلم و ستم سے حاکم
سبق بغاوت کا دے رہے ہیں
وہ سب کو باغی بنا رہے ہیں

وہ ظالموں کے نڈر ملازم
ہمارے حاکم ہیں اُن کے خادم
ہمی کو لوٹے ہی جارہے ہیں
وہ قید کرکے ہماری خوشیاں
وہ روز عیدیں منارہے ہیں
ہماری نیندیں حرام کرکے
بڑی سہولت سے سو رہے ہیں
ہماری گلیوں میں خوں بہا کر
خود اپنے ہاتھوں کو دھو رہے ہیں
ہمارے قاتل ہمار ے مجرم
ہماری بستی گرا رہے ہیں
ہمارے خیمے جلارہے ہیں
ہماری ہستی مٹا رہے ہیں
ہمارے پیسوں سے لے کے گولی
ہمی پہ چلائے جارہے ہیں
ہمارے منصف ہمی کو پیہم
سزائیں دیتے ہی جارہے ہیں
ہمی کو جیلوں میں بھر رہے ہیں
ہمی کو پھانسی چڑھارہے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے