شہر کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ’’ سندھی کا نفرنس‘‘ ہورہی تھی، جس میں ہند اور سندھ کے نامور ادیب اور دانشور مختلف موضوعات پر مقالے پڑھ رہے تھے۔بلاول نے بھی اپنا مقالہ پڑھا۔ اس کے مقالے کا موضوع تھا ’’ سندھ 2050 میں کیسا ہوگا؟ ‘‘۔ اس نے اپنے مقابلے میں جو خاص بات کی، وہ یہ تھی کہ ’’ سندھی والدین کو اور کچھ نہیں کرنا چاہیے، وہ بھلے کسی انقلابی سیاسی تحریک کا حصہ نہ بنیں، لیکن اتنا کریں کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلائیں اور ان کی صحیح تربیت کریں ۔ اگر وہ یہ کام کر گئے تو 2050 سے پہلے سندھ میں ’’کوئی نیا1947‘‘ واقع نہیں ہوگا۔ جب سندھ کی ایک پوری نئی نسل اعلیٰ تعلیم حاصل کر گئی، تو وہ خود ہی سندھ کو سنبھال لے گی اور یہی حقیقی انقلاب ہوگا‘‘۔ اس کی یہ بات بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔
کانفرنس کے آخر میں ریفرشمنٹ کا بندوبست تھا۔ بلاول ایسے پروگراموں میں ریفرشمنٹ یا کھانے کے دورا ن اشیائے خوردونوش پر شرکا کی بے رحمانہ چڑھائی کے سبب اکثر و بیشتر سب کے آخر میں چائے یا کافی کا کپ ہی پیتا ہے۔ اگر اس کاکوئی چالاک دوست پروگرام میں شریک ہوتا اور وہ کھانے کی اشیا کی پلیٹ لبا لب بھر لاتا تو پھر وہ بھی اس کی پلیٹ سے کوئی آدھ ایک بسکٹ اٹھاتا دو چار لقمے کھالیتا ہے ورنہ اللہ اللہ خیر سلا۔
اس مرتبہ بھی وہ حسبِ روایت پیچھے کھڑا تھا کہ ایک آدمی آکر اس کے قریب کھڑا ہوگیا۔ اُس نے جُوں ہی بلاول کو سلام کیا تو بلاول کی نظر اس کے چہرے کے بجائے اس کے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ پر جاکر ٹھہر گئی، جو سموسوں، بسکٹوں ، چیپس ، پیٹیز اور چکن سینڈوچز سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے سینڈوچ کھاتے ہوئے بلاول سے پوچھا ، ’’ آپ کس سیاسی پارٹی میں ہیں؟‘‘
’’ میں کسی بھی سیاسی پارٹی میں نہیں ہوں‘‘۔ بلاول نے قدرے خفگی سے جواب دیا۔
’’ پھر بھی؟‘‘۔ انجانے شخص نے اصرار کیا۔
’’کیا یہ ضروری ہے کہ آدمی کا کسی پارٹی کے ساتھ تعلق ہو؟‘‘۔
’’ ہاں ، ضروری ہے۔ آخر بتانے میں کیا حرج ہے؟‘‘ اُس نے تھوڑی ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’ اگر کسی سیاسی پارٹی سے تعلق دکھانا ضروری ہے تو پھر میرا تعلق سندھی پارٹی سے ہے‘‘۔
’’ یہ کون سی پارٹی ہے؟‘‘۔
’’ یہ سندھ کی اصلی پارٹی ہے‘‘۔
’’ کب بنی ہے ؟‘‘۔
’’ جب سے سندھی قوم بنی ہے‘‘۔
’’ اس کا رہنما کون ہے؟‘‘۔
’’ پہلے تو اس کے رہنما کچھ اور تھے لیکن گذشتہ ڈھائی سو برسوں سے بھٹائی کا اس رہنما ہے ‘‘۔
’’ ہوش میں تو ہو؟ بھٹائی اور سیاست !؟‘‘۔
’’ ہاں، آپ صحیح کہتے ہیں۔ بھٹائی کا سیاست سے کیا تعلق؟‘‘۔
’’ بھئی! ان خیالی باتوں سے باہر نکل آؤ۔ نئے زمانے کے ساتھ چلو‘‘۔
’’ وہ کیسے؟‘‘۔
’’ جس طرح ہم چل رہے ہیں‘‘۔
’’ آپ کس طرح چل رہے ہیں؟‘‘۔
’’ ہر پارٹی کے ساتھ ‘‘۔
’’ اصول اور نظریہ کے بغیر؟‘‘ بلاول کو اب اس پر غصہ آنے لگا۔
’’ کاہے کے اصول، کیسانظریہ؟ کھاؤ پیو، موج اڑاؤ بس‘‘۔
’’ ایسی بے ضمیری کے لیے کوئی اور جاکر ڈھونڈو‘‘۔ بلاول کا پارہ چڑھنے لگا۔
’’ غصہ مت کرو، کئی فائدے اٹھاؤ گے‘‘۔
’’ مجھے فائد ہ ہوگا؟‘‘۔
’’ہاں، نہیں تو اور کسے؟‘‘۔
’’ اور سندھی قوم کو ؟‘‘۔
’’ آپ اسے چھوڑ دیں‘‘۔
’’ کیوں۔۔۔۔۔۔؟ کیوں چھوڑ دوں اسے ؟‘‘۔
’’ آپ ہوں گے ، تو سندھی قوم بھی ہوگی‘‘۔
’’ اچھا!‘‘۔
’’ جی، ہاں‘‘۔
بلاول نے اسے سخت نظروں سے دیکھتے اور مڑتے ہوئے کہا، ’’ معاف کرنا، مجھے فی الحال اپنی پارٹی کے رہبر بھٹائی سائیں نے بلوایا ہے ۔ آج رات وہ ہمیں ’’ کبھی بننا چاہیے گردن تو کبھی بُغدہ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دے گا ۔ اس کا انہوں نے انگریزی میں عنوان رکھا ہے ’’One step farwad Two step back‘‘ لہٰذا مجھے دیر ہورہی ہے ، مجھے بھٹ شاہ چلنا ہے ۔ وہاں ہر قسم کی سوچ رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ وہاں کسی کے بھی آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ‘‘۔
’’ لیکچر کے بعد وہاں اور کیا ہوگا؟‘‘۔
’’ لیکچر کے بعد راگ رنگ کی محفل ہوگی‘‘۔
’’ کون سے فنکار گائیں گے ؟‘‘۔
’’ صرف بھٹائی کے فقیر ہی گائیں گے‘‘۔
’’ آج کے زمانہ میں انہیں کون سنتا ہے ؟‘‘۔
’’ سننے والے سنتے ہیں‘‘۔
’’ کس کی شاعری گائیں گے‘‘۔
’’ بھٹائی کی‘‘۔
’’ آپ موجودہ دور میں کیوں نہیں رہتے؟ کیوں ڈھائی صدیاں پرانے زمانے سے چمٹے ہوئے ہیں؟‘‘۔
’’ میں قدیم دور کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے وجود کے ساتھ چمٹا ہوا ہوں‘‘۔
’’ اس طرح تو آپ اپنا وجود بچا نہیں پائیں گے‘‘۔
’’ کیوں؟‘‘۔
’’ جیسا کہ میں نے کچھ دیر پہلے کہا کہ آپ نئے زمانے کے ساتھ چلیں‘‘۔
’’ وہ کیسے ؟‘‘۔
’’ وہی کچھ کریں جو ہم کرتے ہیں‘‘۔
’’ آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘۔
’’ ہم کچھ دیتے ہیں، اس کے بدلہ میں بہت کچھ لیتے ہیں‘‘۔
’’ اور آپ نے جو کچھ دیا ہے ، ہم وہ سب کچھ لوٹانا چاہتے ہیں‘‘۔ بلاول کی آنکھیں سُرخ ہونے لگی تھیں۔
’’ ہم نے کیا دیا ہے، جس پر آپ اپنا حق سمجھتے ہیں؟‘‘۔
’’ آپ نے سندھ کی شرم و حیا کو بیچا ہے ۔ اپ نے سندھ کی غیرت کو بیچا ہے۔ آپ نے سندھ کی ثقافت کو بیچا ہے۔ آپ نے سندھ کے ارمانوں کو بیچا ہے۔ آپ نے سندھ کے کھیت اور کھلیان بیچے ہیں۔ آپ نے سندھ کا دریا، جھیلیں اور ندیاں بیچی ہیں۔ آپ نے سندھ کے جنگلات اور پہاڑ بیچے ہیں۔ آپ نے سندھ کا مستقبل بیچا ہے۔ آپ نے سندھ کے ہیروز بیچے ہیں‘‘۔
’’ لیکن ہم نے آپ کا بھٹائی تو نہیں بیچا ہے نا؟‘‘۔
’’ آپ نے کوشش توکی ہے اُسے بھی بیچنے کی، لیکن وہ اتنا طاقت ور ہے کہ آپ اُسے بیچ نہیں سکتے‘‘۔
’’ یہ سب ہم پر الزامات ہیں‘‘۔
’’ تاریخ آپ پر آپ کے تمام گناہ ثابت کرے گی۔ آپ پانی کے حباب کی طرح ہیں، جس کے وجود کو پائندگی نہیں ہوتی‘‘۔
’’ آپ غلطی پر ہیں۔ ہر دور ہمارا ہے ‘‘۔
’’ لیکن ایک دور ہمارا بھی آئے گا‘‘۔
انجان شخص نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا، ’’ جب آپ کا دور آئے گا، تب تک آپ خود ہی نہیں رہیں گے‘‘۔
’’ ہم نہیں رہیں گے تو ہمارے بچے ہوں گے۔ وہ مریں گے تو ان کے بچے آئیں گے۔ تاریخ کا میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا‘‘۔ بلاول جذباتی ہونے لگا تھا کہ اتنے میں اس کا دست لاکھاپُھلانی آگیا۔ اُس نے دوسرے شخص کو پہچانتے ہوئے بلاول کا بازو پکڑ کر ، ایک طرف لے جاکر کہا،’’ کس بے کار آدمی کے پلے پڑ گئے ہو؟‘‘۔ یہ پرائے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ چلو ، ہال میں چل کر عابدہ پروین کا راگ سنتے ہیں‘‘۔
پھر دونوں جُوں ہی ہال میں داخل ہوئے تو عابدہ پروین‘‘، عمر ! دیس اپنا بُھلانا کٹھن ہے‘‘۔ گارہی تھی۔ وہ دونوں ہال کی عقبی نشستوں پر آنکھیں موند کر را گ سننے میں گم ہوگئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے