ذکر ہوتا ہے ایک ایسے عظیم خاندان جس نے لاہور جیسے شہر میں رہتے ہوئے بندوں سے پیار کیا اور ہر شخص میں محبت، خلوص اور برداشت کو وسائل کا ناپید ہونے کے باوجود اپنے سے چھوٹے سے گھر کے دروازے کھلے رکھے۔ یہ تذکرہ ہے زبیررانا کا جو ایک بڑے اخبار کی انٹرنیشنل ڈیسک کے سر براہ تھے اور محترمہ نسرین انجم بھٹی کا جو ریڈیو پاکستان لاہور کے سنٹرل پروڈکٹس یونٹ ( سی پی یو) کی ہر دلعزیز سربراہ تھیں۔ دونوں آج ہم میں نہیں۔ انہوں نے ایک ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ دونوں پسے ہوئے طبقات کے زبردست حامی تھے۔ رانا زبیر سے راقم کا تعلق بھائیوں جیسا تھا اور نسرین انجم بھٹی ماں کی محبت بانٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ریڈیو پاکستان جانے سے پہلے محترمہ نسرین انجم بھٹی خاصی مقدار میں کھانا تیار کرتیں۔ زبیر رانا اور دن بھر ان کے پاس آنے والوں کے لیے۔ اکثر راقم زبیر رانا کے ساتھ اُن سے ملنے ریڈیو پاکستان جایا کرتے تھے۔ جہاں وہ چائے اور دیگر لوازمات سے ہماری تواضع کرتیں اور پھر لائبریری سے مقبول ترین گیت نکالنے میں مصروف ہوجاتیں، جن میں اس سماج کی وڈیرہ شاہی، پسے ہوئے طبقات اور وسائل سے محروم طبقات کی ترجمانی ہوتی تھی۔ اکثر نسرین انجم بھٹی کو ریڈیو پاکستان کے اربابِ اختیار وارننگیں بھی دیا کرتے تھے۔ لیکن وہ اپنے روشن فکر نظریات کی ترجمانی نشر ہونے والے گیتوں میں کسی نہ کسی کر جاتیں۔ آمرانہ سوچ کی حامل حکومت جو پاکستان نے ٹریننگ کے بہانے نسرین انجم بھٹی کو چین بھیج دیا اور وہ وہاں سے فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں واپس آئیں اور پھر سی پی یو کا قرہ ان کے نام نکلا۔ پہلے اُس دو افراد پر مشتمل گھرانہ گڑھی شاہو لاہور میں ایک آرٹسٹ آشا بوسلے کے ہمسائے تھے ۔ جب وہ گھر فروخت ہوگیا تو وہ گڑھی شاہو، لاہور میں آشا بوسلے کے بھائی کے ہمسائے بنے۔وہ گڑھی شاہو ، لاہور میں ہی مقیم رہے اور اب وہ نواب ممدوٹ کے ایک گھر میں کرایہ دار تھے۔ نسرین انجم بھٹی ریڈیو پاکستان سے ریٹائر ہوچکی تھیں اور زبیر رانا جس بڑے اخبار کی انٹرنیشنل ڈیسک کے انچار ج تھے شاہ سے زیادہ شاہ کے ہمنواؤں نے مالکان کو ان کے خلاف زہر آلود الزام لگا کر نوکری سے فارغ کروادیا۔ اب دونوں زبیر رانا اور نسرین انجم بھٹی تنہا اپنی زندگی کے دن انتہائی کسمپرسی سے بسر کرتے رہے۔ گھر میں رونق نہیں تو ایسے جیسے بھوتوں نے قبضہ کررکھا ہو۔ جن دونوں نسرین انجم بھٹی چین یاترا پر تھیں۔ روزانہ شام کو راقم کے ہمراہ دو طالب علم سید رفاقت علی زبیر رانا اور نسرین انجم بھٹی کے مستقل مہمان ہوتے تھے۔ وہاں ہماری ملاقات لوک رتیں کے جناب لخت پاشا سے ہوئی جو ثقافتی رموز اور پنجابی زبان پر عبور رکھتے تھے ۔
نسرین انجم بھٹی غزل و نظم مضامین اور سندھی صوفیا کی کتابوں کا اردو اور پنجابی میں ترجمہ کرتی رہتی تھیں اور مختلف ذرائع سے انہیں چھپوا یا کرتی تھیں۔ جنہیں پاکستانی اشرافیہ نے عام نہ ہونے دیا اور ایوارڈز کی فہرست اپنے چہیتوں کی بنا کر حکومتی اداروں کے سامنے پیش کرتے رہے۔ جس کا نسرین انجم بھٹی کو خاصا افسوس تھا۔ قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ وہ ادبی تنظیمیں نئی آنے والی کتب کی رونمائی بھی کروایا کرتی تھیں انہوں نے بھی نسرین بھٹی کو نظر انداز کیا۔ محض اس لیے کہ ان کے تراجم میں ترقی پسند سوچ کی عکاسی کھلے انداز میں ہوا کرتی تھی۔ زبیر رانا بھی اسی قسم کے معاملات کا شکار ہوئے۔ اکثر ان کے کالم اخبارات کی زینت بنا کرتے تھے، لیکن آہستہ آہستہ بھاری تنخواہوں کے حصول میں رکاوٹ کے پیش نظر پرنٹ میڈیا میں موجود مضامین کے صفحات کے انچارج بھی اپنا تعصب دکھانے میں بازی لے گئے اور دھیرے دھیرے زبیر رانا کے تجزیے اور مضامین بھی چھپنے سے رکنے شروع ہوگئے اور آخرکار زبیر راناپرنٹ میڈیا کے صفحات سے غائب کردیے گئے ۔ جس کے نتیجہ میں تنہائی نے ان کا دامن تھام لیا اوروہ ایک کمپیوٹر تک محدود ہوکر رہ گئے۔ نسرین انجم بھٹی نے زبیر رانا کی تنہائی کو ختم کرنے کا جَتن کیا اور آخرکار زبیر رانا کی رخصتی انہیں برداشت نہ ہوئی اور وہ بھی قدم قدم ان کا دامن تھامے خود بھی اس دارِ فانی کو خدا حافظ کہہ گئیں۔