تاریخ‘ ماضی کی کہانی کی حیثیت سے حتمی تبدیلیوں کے تسلسل کا ایک بیانیہ ہے ۔ ہماری انسانی تاریخ کا مکان ہماری زمین ہے ۔ جو زمان کے اعتبار سے چار ارب ساٹھ کروڑ سال پرانی ہے ۔
سائنس میں ’’بِگ بینگ‘‘(بینگ کی بڑی آواز ) کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے ۔ سائنس دانوں کا متفقہ خیال ہے کہ تیرہ ارب سال قبل ایک بہت بڑے کائناتی دھماکے کے نتیجے میں آج کی یہ دنیا بن گئی ۔اس سے قبل تو سارا مادہ اور انرجی ایک ناقابلِ تصور گاڑھے نکتے کی صورت میں موجود تھا ۔ اُس دھماکے کے بعدیہ دنیا پھیلنے لگی ۔ پھیلا ؤ کایہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے ۔ اس پھیلاؤ میں مادہ بکھرنے لگا ۔ یہ عمل ہر جگہ یکساں نوعیت کا نہ تھا ۔ گیسوں کے زیادہ ارتکاز والے ٹکڑوں نے’’ گرے وِٹی ‘‘کی قوت سے زیادہ گیسوں کو اپنی طرف کھینچا ۔ اس کے نتیجے میں کہکشاں وجود میں آ گئے ۔
جہاں تک ہمارے نظامِ شمسی کے وجود میں آنے کی بات ہے تو عام اتفاق اس بات پہ ہے کہ گیس کا ایک بہت بڑا بادل چھوٹا ہونا شروع ہوا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گرے وِٹی کی وجہ سے گیس پارٹیکلز نے ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچناشروع کر دیا ۔ گیسوں کی کثیر مقدار نظام شمسی کے مرکز کو چلی گئی اور سورج بنا لیا ۔
علمِ فلکیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ بہت بہت زمانہ قبل زمین اور دوسرے ستارے سورج کا حصہ تھے۔ سورج اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جیسے کہ اب ہے۔ یعنی شعلے بھڑکاتا ہوا ، خوفناک انداز میں گرم ایک مرکزہ۔کبھی کبھی سورج کے معمولی ٹکڑے ڈھیلے پڑ کر باہر ہوا میں تیز دھارے کی طرح نکلتے رہے۔ سورج کے گرد چکرلگاتے ہوئے یہ ٹکڑے سیاروں کی حیثیت سے ٹھوس بن گئے جن میں ہماری زمین بھی شامل ہے۔۔۔۔۔۔۔زمین جو ایک وسیع کائنات میں محض ایک معمولی نکتے جتنی ہے۔(1)
شروع والی زمین مادہ کا ایک یکساں جسم تھی جس کی سطح پر کوئی براعظم نہ تھے ، کوئی سمندر نہ تھے ۔ نہ ہی گہرائی میں اندرونی زون موجود تھے ۔ کم سن زمین شروع میں نوخیز نظامِ شمسی کے بے ترتیب و بے ہنگم اجسام کی بھاری سنگباری میں رہی ۔ اس سے اس کی سطح پر بے انتہا گرمائش ہوئی ۔ نیز اس کے اندر بھی ریڈیو ایکٹو میٹریل کے زوال کے نتیجے میں زبردست حرارت پیدا ہوتی رہی ۔ اس کے نتیجے میں ہماری زمین حل ہو گئی اور بھاری مواد مرکز میں ڈوبتا چلا گیا اور ہلکا مواد اوپر آتا گیا ۔ اس طرح زمین کا اندر‘ سطحوں میں ترتیب پاتا گیا ۔ جو کہ ایک دوسرے سے طبعی اور کیمیائی دونوں لحاظ سے فرق رکھتی تھیں ۔ علاوہ ازیں ، گیسیں بھی اندر سے باہر کی طرف نکلنا شروع ہوئیں جن سے بالآخر فضا اور سمندر بن گئے ۔ ہلکے مواد کے اوپر اُبھر آنے سے اندرونی گرمائش اوپر آ گئی ۔ زمین اپنی سطح پر سرد ہوتی گئی اور براعظموں کی شکل میں ٹھوس بنتی گئی ۔ مگر ابھی بھی مرکز میں ہماری زمین دانتے کی دھکتی دوزخ جیسی ہے ۔(2)
رقصِ درویش
سائنس کی دریافت کے مطابق نظامِ شمسی کے جو نو ستارے سورج کے گرد اپنے مقررہ مدار میں گھومتے ہیں اُن میں سے ایک ہماری زمین ہے۔ اِن نو میں سے چار اندروالے سیارے ہیں: مرکری(رومنوں کے ہاں خداؤں کے پیغامبر کا نام ہے)، وینس(محبت اور حسن کی دیوی)، زمین ۔۔۔۔، اور مارس(جنگ کا دیوتا) ۔ یہ چٹانوں والے سیارے ہیں۔ بقیہ پانچ باہر والے سیارے ہیں:پیٹر، سیٹرن(ٹائم کا دیوتا)، یورینس، نیپچون اور پلُوٹو۔ یہ گیس والے سیارے ہیں۔
چار اندرونی چٹانی سیاروں میں سب سے بڑا سیارہ ہماری زمین ہے۔
دلچسپ بات ہے کہ سارے ستاروں کو دیوتاؤں کے نام دیے گئے۔ اور ہفتے کے سارے دن، انہی ستاروں کے نام سے ہیں۔Saturday یعنی ہفتہsaturn(ٹائم کا دیوتا) کے نام پر ہے۔Sundayاور Moonday سورج اور چاند کے نام ہیں،Wednesday wodinکا دن ہے،Thursday Thor کا دن ہے اور Fridayمحبت کے دیوتاFreyaکا دن ہے۔ آخر الذکر تینوں دن حملہ آور دیوتاؤں کے نام پر ہیں۔(3)
اور یہ سات کا ہندسہ مافوق الفطرت ہندسہ بن چکا ہے۔ سات آسماں، سات زمین، ساتویں آسمان پر ستارے جڑے ہیں، مسیحیت میں خدا کے آرام کا دن ساتواں ہے، سات کا ہندسہ خوش قسمت ہندسہ( ( Lucky Seven ہوتا ہے ۔سر میں سات سوراخ ہیں، چاکر ست گھرا میں دفن ہے ، شہ مرید نے اپنے باپ کی ماری جوتی کو سات بار زیارت کیا، اونٹ سات جگہ سے حلال کیا جاتا ہے ، مقدمہ سات جگہ تک لے جایا جا سکتا ہے ۔(بلوچی ضرب المثل)۔
ہم سورج سے ڈیڑھ سو ملین کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ ہم سورج کے گرد ہمہ وقت طواف کی صورت ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں تقریباًساڑھے365دن لگتے ہیں۔ ان چکروں کے چکر میں ہم سورج سے اپنے لئے ضرورت کی حرارت لیتے ہیں ۔ پانی تو خود ہمارے پاس موجود ہے۔
مگر ہم تو بہ یک وقت کرکٹ کی پھینکی گیند کی طرح خود اپنے گرد بھی گھومتے رہتے ہیں۔ اپنے ہی گرداِس’’ رقصِ درویش‘‘ کے ایک چکر میں ہمیں24گھنٹے لگتے ہیں۔ جو حصہ سورج کے سامنے آئے گا، دن لائے گا اور جو حصہ پیچھے ہوگا وہاں رات ہوگی۔یہ الگ بات ہے کہ ہم روزمرہ گفتگو میں زمین کے گھومنے کی بات نہیں کرتے بلکہ سورج کے نکلنے ڈوبنے(روش ٹِک، روش ٹُب) کی بات کرتے ہیں۔
آیئے ہم چکر کاٹنے کے نظریے کے مالک مولانا روم کا ایک اچھا ٹکڑا پڑھ لیں:
میں کھڑا ہوتا ہوں، اور میرا وجود
سَو وجود بن جاتے ہیں
وہ کہتے ہیں میں گھومتا ہوں تمہارے گرد
بکواس ہے ، میں اپنے گرد گھومتا ہوں
مگر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نے بہت آرام سے مان لیا کہ زمین ساکت نہیں ہے۔ ہم صدیوں تک اپنی پرانی بات اور نظریے پر ڈٹے رہے کہ زمین ساکن ہے،زمین مرکز ہے اور سب کچھ یعنی سورج، چاند، ستارے اِسی کے غلام اور باندی ہیں اور اِسی کے گرد گھومتے ہیں ۔ ذرا گیلیلو کو یاد کیجئے جسے آج سے پانچ سو سال قبل 1633میں چرچ والوں نے یہ بات کہنے پر سزا دی کہ ’’ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے‘‘۔چرچ والوں نے اعلان کیا:
’’ یہ نظریہ کہ زمین نہ تو دنیا کی مرکز ہے او رنہ یہ ساکت ہے بلکہ روزانہ کے حساب سے یہ گھومتی ہے، بکواس نظریہ ہے اور بالکل باطل ہے ‘‘۔
گیلیلیو کی کتابوں پر پابندی لگادی گئی۔ اُس کی جان بخشی اُس وقت ہوئی جب اُس نے اِن ملاّؤں کے سامنے اپنے نظریے سے تائب ہونے کا اعلان کردیا۔ دو سو سال تک اس کی کتابوں پر پابندی لگی رہی۔پادریوں نے اس کی کتابیں پڑھنے والوں پہ فتویٰ لگا دیا تھا کہ انہیں لا فانی ارواح کی ہیبت ناک سزا ملے گی۔ گیلیلو کی کتابوں پر1832میں پابندی ہٹی۔

ہماری زمین کا ستر فیصد حصہ سمندر ہے۔ بقیہ تیس فیصد پہ ہم رہتے ہیں۔ہماری زمین کو اگر گہرائی کی طرف کھودتے جائیں تو 35 کلومیٹر تک سخت خشک اور نسبتاً ہلکے وزن کا چٹانی پتر چڑھایا ہوا غلاف(Crust)ہی ملے گا۔سارے درخت‘ جھاڑیاں‘ چرند پرند، درند ،سمندر، پہاڑ ، ہوا، انسان اور انسانی سرگرمیاں سب اسی غلاف پر قائم ہیں۔ جس نے کہ تین ہزار کلومیٹر موٹے سیال چوغے (Mantle) کو ڈھانپ رکھا ہے جو کہ ٹھوس اور نیم ٹھوس مواد پر مشتمل ہے۔(Mantle) نامی پیاز کے اِس موٹے چھلکے کے نیچے سوا دو ہزار کلومیٹر موٹے پگھلے ہوئے چٹانی مواد کی تہہ ہے جسے باہر کا گُودہ(Outer Core)کہتے ہیں۔ اور اُس چھلکے کے اندر زمین کا مغز یعنی اندرونی گُودہ(Inner Core) ہے جو کہ لوہے اورnickle سے بنی ٹھوس گیند ہے۔

آسٹریلیا کی سسّی مکران کا پنّوں

ہمارا بلوچستان دو بلوچستانوں سے مل کر بنا ہے۔ملینوں سال قبل (جب ہم انسان ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ) آج کے مغربی بلوچستان کی چاہت میں زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑا‘ قطبِ جنوبی والی برف سے منجمد زمین سے علیحدہ ہوگیا اور کچھوے کی رفتار سے یوریشیا کے سمندر کے جنوبی ساحل پہ موجود گرم اور دھوپ بھرے مغربی بلوچستان سے ملنے چل پڑا۔ چلنا کیا تھا نیم مائع مواد پر تیرتا ہوا آیا۔ مگر یہ تیراک‘ ایک انجن والا چھوٹا سا جہاز نہ تھا بلکہ زمین کا ایک بہت بڑا اور بھاری ٹکڑا تھا جسے’’ براعظم ‘‘ کہتے ہیں۔ اُسے اپنے محبوب تک پہنچنے میں ملینوں برس لگ گئے۔ اس نے آکر زمین کے ایک اور بڑے ٹکڑے کو ہزاروں میل پرے دھکیل دیا اور خود مشرقی بلوچستان بن کر مغربی بلوچستان کے پہلو میں پیوست ہوگیا۔دوسرے لفظوں میں پورا برصغیر پاک و ہند مشرقی بلوچستان تک ہند آسٹریلیائی پلیٹ پر مشتمل ہے۔(4)ارے ہم انسان ابھی تک پیدا نہ ہوئے تھے ورنہ ہم ضرور کوئی شاعری بُنتے ، کوئی عقیدے بنالیتے یا کم از کم کوئی ضرب المثال ہی وضع کرتے۔
لیکن یہ کام ہمارے دو مصنف دوستوں نے کر دکھایا۔ ڈاکٹر محمود صدیقی اور محترمہ عظمیٰ محمود نے اِس سائنسی مظہر کوایک بہت ہی خوبصورت ادبی رنگ عطاکردیا :
’’زمانے بیتے کہ قطب جنوبی کی منجمد سرزمین( جہاں سورج شاذونادر ہی طلوع ہوتا تھا) کے دیوتا کی ملاقات سمندر پار کی ہمہ وقت چمکتے سورج کی سرزمین کی دیوی سے ہوئی۔ دیوتا ‘دیوی کے آسمانی حسن سے اس قدر مسحور ہوا کہ اسے دیوی سے محبت ہوگئی ۔ دیوی نے گو کہ منجمد زمینوں کے دیوتا کو پسند کیا مگر وہ شادی کرکے اپنے ہمہ وقت چمکتے سورج والی سرزمین کو چھوڑنا نہ چاہتی تھی۔لہٰذا اس نے شرط رکھی کہ وہ دیوتا سے صرف اُس وقت شادی کرے گی جب وہ اپنی محبت ثابت کرے اور اپنی پوری سلطنت کو دیوی کے گرم اور روشن ملک کے قریب لائے۔ دیوتا نے اس کی شرط مان لی اورواپس اپنی سلطنت پہنچ کر ، اپنے تخت کو اغوا کرلیا۔ اس نے اپنے وسیع ترین سلطنت سے ایک ٹکڑا پہاڑ لیا اور زمین کے اس ٹکڑے پہ سوار سمندر پار اپنا سفر جاری رکھا۔ زمین کا ٹکڑا اپنی بھاری وزن کے سبب کچھوے کی رفتار سے تیرتا رہا۔ جس سے دیوتا کو سمندر کے دوسرے کنارے پہنچنے میں ملینوں سال لگ گئے۔یوریشیا کے ساحل تک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ اس کی محبوبہ کے پڑوس میں واقع سرزمین پر تو دیوی کے ایک اور عاشق کا قبضہ ہے۔ دیوتا حسد سے اس قدر مغلوب ہوا کہ اس نے رقیب کے علاقے کو دور دھکیلا اور اپنی زمین کے لئے جگہ بنائی تاکہ اپنی محبوبہ کی سرزمین کے پہلو میں ہمیشہ کے لئے لنگر انداز رہے۔ اس وقت سے وہ دونوں خوش و خرم رہ رہے ہیں‘‘۔
’’آج‘ دیوی کی آبائی سرزمین کو ’’مغربی بلوچستان‘‘ کہتے ہیں اور دل پھینک دیوتا کے علاقے کو’’ مشرقی بلوچستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ محبت کے حکم سے زمین کے دونوں ٹکڑے ایک واحد جغرافیائی یونٹ میں ضم ہوگئے ہیں جسے آج کا ’’ بلوچستان‘‘ کہا جاتا ہے‘‘(5)۔
مگر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ دیوتا( اور اُس کی زمین کا ٹکڑا یعنی پلیٹ) کوئی وفا کا پیکرہے ‘اور اب وہ شکر صبر کرکے آرام سے محبوبہ کی آغوش میں بیٹھا ہے ۔ نہیں، یہ کچھوا ابھی بھی شمال کی طرف سرک رہا ہے اور اپنے شمالی کنارے سے یوریشیا کو کچکوکے لگاتا جاتا ہے۔
ایک ہم ہی کیا ‘ساری دنیا کی زمین تیراکی میں اپنے پرانے رفیقوں سے بچھڑتی اور نئے دوست بناتی رہی ہے۔بچھڑتے وقت کچھ آنسو گرتے ہونگے یا نہیں، مگر یہ تو حتمی بات ہے کہ پچھلے سے بچھڑتے وقت بھی اور نئے سے بغلگیر ہوتے وقت بھی کچھ تھرتھلّی مچتی ہے۔ اس تھرتھلّی کو ہم بلوچی میں ’’زمیں چنڈ‘‘ اور اردو والے زلزلہ کہتے ہیں۔ اور اسی بغلگیری(ٹکڑاؤ) سے دونوں کے بیچ مٹی اور چٹان بھینچ جاتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے اکھڑ کر اوپر کو دیو ہیکل ڈھیریاں بناتی ہیں۔ انہیں ہم کوہ یا پہاڑ کہتے ہیں جو دو پلیٹوں کے بغلگیر ہونے کے ساتھ ساتھ ابھرتا ہوا سلسلۂ کوہ بناتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقی بلوچستان نامی نو آمدہ پلیٹ مغربی بلوچستان نامی دیسی پلیٹ کے دندانوں میں فٹ ہونے کی لگاتار کوشش میں لگارہتا ہے جس سے اُن کے اوپر کی منزل پہ موجود نباتات و حیوانات لڑھک لڑھک جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ نامعلوم زمانوں سے جاری ہے اور نامعلوم زمانوں تک جاری رہے گا۔
زمین کا وہ ٹکڑا جس پر مشرقی بلوچستان واقع ہے ایک زمانے میں اُس پلیٹ پر واقع تھا جس پر ہمارے ساتھ انڈیا ، آسٹریلیا ، انٹارکٹیکا ، افریقہ اور جنوبی امریکہ موجود تھے ۔ 144 ملین سال قبل یعنی جیوراسک عہد میں اِس (سُپر کانٹی ننٹ) کے مختلف حصے باہم دور ہونے شروع ہوئے ۔ ہمارا علاقہ شمال کو سرکتا چلا آیا اور 58 سے 30 ملین سال قبل یوریشین براعظم سے جا ملا۔(6)
انسانی تاریخ تو فطرت کی تاریخ کا تسلسل ہے ۔ نامیاتی ارتقا اور کلچر میں ترقی کے بیچ، ایک مناسبت موجود ہے ۔
ملینوں سال تک زمین پر کوئی مرد اور عورت نہیں رہتی تھی۔ انسان کی آمد سے قبل یہاں صرف جانور تھے اور جانوروں سے قبل ایک زمانہ ایسا تھا جب زمین پہ کسی قسم کی زندگی موجود نہ تھی۔ اس لئے کہ بہت عرصہ تک زمین اس قدر گرم ہوا کرتی تھی جس پہ کوئی جاندار رہ ہی نہیں سکتا تھا۔(7)
سائنس نے اب ایسے ترقی یافتہ طریقے دریافت کر لئے ہیں جن سے آثار قدیمہ اور چٹانوں سے ملنے والے فاسلز) Fossills (،(ہڈیاں جو پتھر بن چکی ہیں)کی عمر کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
قدیم انسانی تاریخ کے کوئی تحریری شواہد موجود نہیں ہیں۔ نہ ہی اُس زمانے کے لوگوں کے نام موجود ہیں، نہ اُن کے انفرادی کارنامے دستیاب ہیں۔ نہ یہ معلوم کہ وہ کونسی زبان بولتے تھے ۔ مذاہب تو خیر بہت بعد میں آئے۔ قدیم انسانی تاریخ اپنے جغرافیائی اور طبعی حالات والے علاقے میں صرف اور صرف پیداوار کرنے والی سماجی قوتوں کی فاسل(Fossil) شدہ نشانیوں میں ڈھونڈی جا سکتی ہے ۔قدیم کی کھوج میں آرکیالوجی سب سے مدد گار سائنس ہے ۔آرکیالوجی معاشی نظام میں تبدیلیوں، اورذرائع پیداوار میں بہتری آ جانے کا مشاہدہ کرتی ہے اور انہیں تاریخ وار مرتب کرنے کا کام کرتی ہے ۔
ہم آپ پر ایک خوشگوار جبرہوا ہے ۔۔۔۔وہ یوں کہ بارکھان اور ڈیرہ بگٹی میں پانچ کروڑ سال پرانے دفن شدہ ڈائنو سار، وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم کی ہڈیاں نکلی ہیں۔ اِس قدر قدیم بلوچستان سے میرا آپ کا تعلق ہے۔ اب جب اپنے اجداد کی قبرستان پہ بنے جدید بلوچستان کا مطالعہ کرنے نکلیں گے تو یہ باب تو لازماً لکھنا اور پڑھنا پڑے گا۔ اس لئے ‘سہل پرستی چھوڑ کر کونین جیسا تلخ اور الجبرا جیسا مشکل یہ حصہ لکھنا اور پڑھنا ہوگا۔ آسا ن لفظوں میں بیان کرنا تو کسی بھی دانشور کے لئے خدائی نعمت ہو گی۔مگر مردہ جانوروں کی ہڈیاں پڑھنا کہاں آسان کام ہوتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ سارے چرند پرند ، درنداور انسان سب کے سب نامعلوم مقام سے یکبارگی، یک دم، اور اکٹھے آئے۔بلکہ ثابت یہ ہوا ہے کہ ابتدا میں بہت ہی سادہ جاندار وجود میں آئے تھے۔زیادہ پیچیدہ جانور ہمیں بعد کے زمانوں میں دستیاب ہوتے گئے۔ انسان کی آمد کے آثار تو سب سے آخر میں ہمیں ملتے ہیں۔زمین پر زندگی سمندروں اور کم گہرے تالابوں میں وجود میں آئی ۔ زمین پر زندگی زیادہ تر پانی سے بنا ہے۔گل زمین پر 4000ملین سال قبل زندگی ایلجی اور بیکٹریا کی صورت پیدا ہوئی تھی ۔ جبکہ آبی حیات بالخصوص جیلی فش570 ملین سال پہلے نمودار ہوئی ۔زمینی جھاڑیاں اور کیڑوں کی نشانیاں 410 ملین سال پرانی ہیں ۔360ملین سال قبل مسیح پروں والے جانور اور 320 ملین سال قبل مسیح رینگنے والے جانور نمودار ہوئے۔ڈائنو سار کا ظہور 248 ملین اور پرندوں کا213 ملین سال ق م میں ہوا ۔ 98 ملین سال ق م ڈائنو ساروں کا آخری عہد ہے ۔65 ملین سال ق م میں بڑے ممالیہ جانور سامنے آئے۔بے دُم کا بندر( ایپ) 25ملین اور انسان نما جانور 5 ملین سال قبل مسیح میں منظر عام پہ آئے ۔ گھوڑے ، ہاتھی ، بڑی سینگوں والے جانور اور انسانی نسل 1.8 ملین سال قبل مسیح سے وجود میں آئی ہے ۔مہر گڑھ اور آس پاس5000 سال قبل مسیح ہاتھیوں کی باقیات ملی ہیں ۔ جس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آج کا خشک و بنجر بلوچستان ایک زمانے میں گھنا اور سرسبز جنگل ہوا کرتا تھا (8)
کولن تج ایک دلچسپ بات کرتا ہے:’’ اِس وقت اِس زمین پہ ہم 30 ملین دیگر جاندار مخلوقات کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ یہ ایک گمان ہے ، اس لئے کہ اب تک صرف ایک ملین جتنی مخلوقات کو نام دیئے گئے ہیں ۔ مگر ابتدائی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ منطقہ حارہ ( Tropical) جنگلات کے سائبان اور جڑوں میں رہائش پذیر ایک معلوم مخلوق پہ تیس ایسی مخلوقات ہیں جن کا ابھی معلوم نہیں ہے ۔ اگر ساری 30 ملین مخلوقات بیان کی جاتیں ، اور اگر آپ اُن کے نام لینا شروع کریں ۔۔۔۔ ہر ایک کے لئے ایک سیکنڈ۔۔۔۔ تو آپ کو اُن سب کا نام لیتے لیتے ایک سال گزر جائے گا ، وہ بھی اگر آپ اس پورے سال کھانا کھانے یا سونے کے لئے اِن کے نام لینے میں وقفہ نہ کریں تو!!۔(9)

حوالہ جات
-1 کارل ساگاںPale Blue Dot بیلنٹائن بکس ۔ نیویارک1994۔ صفحہ4
2۔ صدیقی، محمود اور عظمی محمود۔ Discover Balochistan۔ سنگت ۔جنوری 2008۔صفحہ 72
-3 کارل ساگاں۔Pale Blue Dot صفحہ99
4۔ صدیقی اور عظمیٰ ۔ ڈسکور بلوچستان۔ ماہنامہ سنگت کوئٹہ۔ مارچ2008۔ صفحہ69
5۔ ایضاً صفحہ72
6۔ عرفان ۔ حبیب ۔ پیپلز ہسٹری آف انڈیا ۔ جلد نمبر 1۔2004 فکشن ہاؤس ۔ صفحہ نمبر 2
7۔ نہرو، جواہر لال۔Letters from A Father to His Daughter چلڈرنزبک ٹرسٹ، نیو دہلی۔1988۔ صفحہ7
8۔ عرفان ۔ حبیب ۔ پیپلز ہسٹری آف انڈیا ۔ جلد نمبر 1۔2004 فکشن ہاؤس ۔ صفحہ نمبر 2
9۔کولن تج۔ دی ٹائم بیفور ہسٹری۔Scribner نیویارک ۔1996۔ صفحہ 113

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے