میں ایک عورت ہوں
شاعر کے تخیّل کا استعارہ
میری آنکھوں میں جھیل کی گہرائی
میری نظر، تیر نظر
ہاں مگر! میری شفقت بے مثال
اور محبت میری لازوال
میری آنکھوں کو جھیل کہنے والے
ان آنکھوں کی نمی کو سمجھے ، کون؟
میں جو غیرت کی یرغمال ہوں!
میری قیمت لگائی جاتی ہے
مجھے دشمنی میں بانٹا جاتا ہے
میں گلا کروں تو کس سے بول؟
لیکن!میں اب چپ نہیں رہونگی
میں کیوں چپ رہوں؟
میں شاعر کے تخیّل کا استعارہ اب
تبدیلی کا استعارہ بنوں گی!
میں مالِ غنیمت نہیں ہوں
کہ جس نے جہاں چاہا لٹا دیا!
میں خود اپنی شناخت ہوں!
میں خود اپنی شناخت رہوں گی!!
کہ یہ کہکشاں جو چمکتی ہے
میں اس کہکشاں کا ستارہ بنوں گی!!

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے