امداد حسینی کا مکتوب

شاہ محمد!
گوادر میں اچھا وقت گزرا۔ تمہیں دیکھنے ؍ ملنے کی چاہ تھی، جو پوری نہ ہوئی۔ میں تمہارے لیے ’’ دھُوپ کرِن‘‘ لایا تھا،ا ور عابد میر سے کہا بھی تھا کہ وہ مجھ سے لے اور تمہیں پہنچادے۔ لیکن وعدہ کرکے بھی وہ نہیں آیا۔ اسلام آباد میں مادری زبانوں کا میدان سجا تھا 19 فروری تا 21 فروری ۔ وہاں بھی ’’ دھوپ کِرن ‘‘ لایا تھا، تمہارے لیے ، لیکن تم وہاں بھی نہیں آئے۔
تمہاری بھیجی ہوئی کتابیں مل گئیں۔ ان کے لیے شکریہ۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی پر لکھی ہوئی کتاب لطیفیات کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ تم نے شاہ سائیں کو ایک نئے اور صحیح نکتہ نظر سے دیکھا ، پرکھا اور پیش کیا ہے ۔ حالانکہ ترقی پسندوں نے اس ضمن میں لکھا ہے ۔ لیکن ہماری کتاب بہتر ہے۔ اُسے سندھی میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے۔ کتاب کا عنوان بھی ’’ شاہ عبدالطیف بھٹائی ‘‘ہونا چاہیے تھا۔
’’ گوادر‘‘ پر گوادر میں ہی ایک سندھی نظم لکھی تھی، اور وہیں مشاعرے میں پڑھی بھی تھی، اور وہاں اس نظم کو پسند بھی کیا گیا تھا۔ یہاں وہ نظم لکھ رہا ہوں:
بلوچ یار کے لیے
پہاڑن جن سدائیں گاٹ او چی سان جیئیں جگ میں
چون تھا چنڈ میں داغ آپرناھی سندے پگ میں
رہیں محفوظ شل ہر ناظر جی بد نظر کھان تون
دَھنڑیں جی در دعا آہے تہ گھر گھر خوش رہے تنھنجو
رہیں شل سرخروائین یار تنھنجا شل رھِن سَرھا
اھیی نیرو، اھو گہرو سمندر خوش رہے تنھنجو
فقیرانڑیں صدا آھے گوادر خوش رہے تنجھنو
گوادر یا ترا جہاں میرے لیے حیرت و مسرت کا لمحہ تھا، وہاں دکھ کا لمحہ بھی !۔ میرے بڑے دادا شاہ عبدالطیف بھٹائی پا پیادہ اپنی نوجوانی میں بلوچستان کی تیرتھ یاترا پر آئے تھے، اور میں75 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ بلوچستان آیا تھا۔ جس کے لیے ہم، میں اور سحر ، ادی فاطمہ حسن کے شکر گزار ہیں۔ اس یاترا میں کئی سہانی یادیں اپنے ساتھ لے آئے، اور کئی یادیں وہاں چھوڑ آئے۔ اورمجھے امید ہے کہ یہ یاترا آخری نہیں ہوگی۔
مجھے یہ بھی حیرت ہوئی کہ بلوچستان کے اس حصے میں سندھی بولی نہیں جاتی۔ لیکن ہم بولتے بھی رہے اور لوگ سمجھتے بھی رہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ملے جو سندھی بولتے بھی تھے۔ عطا شاد، یادگار مشاعرے کو بھی بلوچی ۔ اردو مشاعرہ لکھا گیا تھا، لیکن میں نے اور سحر نے اردو کے ساتھ سندھی اشعار پڑھ کر اسے سندھی، بلوچی اردو مشاعرہ کردیا۔ اور یہ بات میں نے وہاں کہی بھی۔ بلوچستان میں لسبیلہ کے خطے میں کبیر شاہ جیسے عظیم سندھی شاعر گزرے ہیں۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی اس موضوع پر’’بیلاین جا بول ‘‘ایک اہم تصنیف ہے۔
اس فیسٹیول کے آخری اجلاس کے بعد جب ہم ہال کے باہر آئے، تو میں نے RCD کے چیئرمین سے پوچھا، کہ ’’ جب سسی اور پنہوں آپس میں ملتے تھے تو کون سی زبان بولتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ’’محبت کی زبان!‘‘ لیکن بلوچ سندھی اور سندھی بلوچی جانتے تھے۔ جیسا کہ شاہ سائیں نے بھی بلوچی الفاظ وسیع معنی میں اپنی شاعری میں استعمال کیے ہیں، جن کا تم نے اپنی تصنیف ’’ عبدالطیف بھٹائی‘‘ میں حوالہ بھی دیا ہے۔

اُکیر کے ساتھ
امداد حسینی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے