ایک زمانہ تھا جب بلوچی شاعری جنگی داستانوں،روایتی عشقیہ قصوں،سرداروں اور مذہبی پیشواؤں کے قصائد یا پھر قحط اور بارش کی تباہ کاریوں کی کہانیوں پر مشتمل ہوتی تھی اس شاعری میں ایسی تراکیب و تلمیحات اور استعارات کا استعمال کیا جاتا تھا جو اس وقت کے قبائلی بلوچ معاشرے میں رائج روایات اور علمی، ادبی ،ثقافتی ، معاشرتی احساسات اور جذبات کا آئینہ دار ہوتے تھے۔ گو کہ اس وقت کے قادر الکلام شعراء نے بھی زلف خمدار،وصال یار ،جام و ساقی اور ہجرو وصال جیسے لطیف اور پر کشش موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا تا ہم زیادہ تر شعراء نے محبوب کے جسمانی خدوخال، رقیب اور ان باتوں کو موضوع سخن بنایا جو ایک بلوچ معاشرے کی عزت و حمیت کی متقاضی تھیں۔ مثلا میدان کا رزار سے پیٹھ دکھانے والے کی ہجو اور اپنے اسلاف کی بہادری کے قصے وغیرہ یا پھر قبائل کے ما بین ہونے والی جنگوں اور عمائدین قبیلہ کی سخاوت کے حالات و واقعات کو شاعری کے قالب میں ڈھال کر اپنی قبائلی تاریخ کو ہمیشہ کیلئے لوگوں کے سینوں میں محفوظ کر دیا ۔ان منظوم واقعات اور عشقیہ داستانوں کو بلوچی زبان میں ’’داستان‘‘ کہا جاتاتھا۔معروف بلوچ شاعر جام درکھ (درک) کے دور سے قبل بلوچی شاعری میں قافیہ کی پا بندی کے بغیر بہترین شاعری کے نمونے تخلیق کیے گئے ۔ان شعراء میں حمل رند، شیہہ مرید، بالاچ گورگیج، جیسے نام شامل ہیں ۔اس کے بعد شہرہ آفاق شاعر مست توکلی نے اپنی شاعری میں ادبی اور علمی تلمیحات و استعارات کا جس حسن و خوبی کے ساتھ استعمال کیا وہ صرف اور صرف مست کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ پھر اس کے بعد متاخرین بلوچ شعراء میں ایک معتبر نام حضرت بابا جو انسان بگٹی کا ہے جن کی شاعری عارفانہ رنگ کے ساتھ ساتھ بہترین ادبی اور علمی تخلیق تو ہے ہی اس کے علاوہ بلوچی ادب کے لئے ایک عظیم اور گراں مایہ اثاثہ بھی ہے۔ جو انسان بگٹی ہی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والی ایک عظیم اور علمی اور ادبی حوالے سے قد آور شخصیت کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو بلوچی ادبی حلقوں میں کسی تعریف کا محتاج نہیں ۔آپ ہیں بلوچی شاعری کو جدید اسلوب اور اصناف دینے والے شاعر جناب استاد مندوست بگٹی ۔ استاد مندوست بگٹی کا تعلق بگٹی قبیلہ کی معرو ف شاخ’’ ہیجوانی‘‘سے ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ہنجوانی قبیلہ اصل میں ڈیرہ غازیخان کے سکونتی بلوچ قبیلہ” لیغاری” کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ استاد مندوست اس بارے میں بتاتے ہیں کہ سینہ در سینہ منتقل ہونے والی روایات بتاتی ہیں کہ اس ہیجوانی قبیلہ کا ایک فرد ” زاہرو زہم جن” تیغ زن کے نام سے معروف تھا اس کے بیٹے مزار نے اپنے باپ سے کسی ناچاقی کی وجہ سے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ علاقہ چھوڑا۔ دینار نے روجھان جمالی کا رخ کیا جبکہ” تھنگی” نے بگٹی قبیلہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور بالا آخر یہیں کا ہو رہا ۔
استاد مندوست نے بتایا کہ تھنگی کی اولاد میں ایک معروف حکیم اور ماہر جراحت”کرمہان ” نامی ایک شخص نے والی قلات میر خداداد خان کا علاج معالجہ کیا جس پر خوش ہو کر مہربان حاکم نے موجودہ سوئی (ضلع ڈیرہ بگٹی) کے نواحی میں "کٹھن” کے مقام پر انیس ہزار ایکڑ زرعی اراضی بطور انعام کے عطاکی۔ استاد مندوست نے بتایا کہ ان کے جد امجد نے شنبانڑیں قبیلہ میں "گوہر” نامی خاتون سے شادی کی یوں یہ قبیلہ مستقل بگٹیوں میں شمار کیا جانے لگا۔
استاد مندوست نے یہ بھی بتایا کہ گوہر نامی وہ خاتون اپنے دورکی بہت بڑی شاعرہ تھی ( لیکن صد افسوس کہ اب اس کی شاعری معدوم ہے)۔اس طرح آپ کے نانا ولی محمد اور ان کے بھائی حضرت بابا جوانسال نے صوفیانہ اور نعتیہ شاعری کی صورت میں بلوچی ادب کو وہ گوہر نایاب بخشے جو صرف اور صرف اہل علم و دانش ہی جانتے ہیں۔ آپ کا مجموعہ کلام حال ہی میں آپ کے نواسے حمید اللہ خان ہیجوانی نے کلام جو انسال کے نام سے دوبارہ شائع کر کے جوانسال کے قدردانوں کو خوش کیا۔ استاد مندوست بگٹی 1953 ء میں گوٹھ فقیر بخش ضلع جیکب آباد سندھ میں عطا محمد ہیجوانڑیں بگٹی کے گھر پیدا ہوئے ۔آپ کے دوسرے بھائی کا نام میر دائم خان جبکہ تین بیٹے نور اللہ زیب، سر بلندخان، عطا محمداور ایک بیٹی محترمہ گوناف ہے۔ استاد مندوست نے اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ لڑکپن کے ایام بڑی تنگدستی اور کسمپر سی میں گزرے۔سکول سے چھٹی کے بعد اپنے والد صاحب کے ساتھ کا شتکاری اور محنت مزدوری کر کے گھرکا چولہا جلایا ۔پھر کچھ وقت کیلیے مالی زبوں حالی کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنا پڑا اور کچھ سال بعد 1992ء میں میڑک کا امتحان پاس کر کے بطور جے وی ٹیچر گورنمنٹ سکول میں استاد بھرتی ہو گئے۔ یہ وہ دور تھا جب مندوست کی شاعری کی ابتداء ہوئی وہ بتاتے ہیں کہ شاعری ایک حادثاتی واقعے کی وجہ سے شروع کی جو کہ ہنوز جاری ہے۔
آئیے اب آپ کو ان کے فن کے بارے میں بتائیں استاد مندوست صاحب نے بلوچی شاعری کو ایک نئی جہت اور پہچان عطا کی آپ نے پہلی بار بلوچی میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بلوچی غزل،کافی،نظم،قطعہ،رباعی میں طبع آزمائی کی یہی وجہ ہے کہ اہل علم اور ادبی حلقوں میں آپ کے ادبی کام کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ ایک سند کی حیثیت دی جاتی ہے۔ آپ کے کلام کی دیگر خوبیوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ آپ نے پاکستانی اور ہندوستانی فلمی گانوں کی طرز پر سینکڑوں گیت لکھے جو بلوچی ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور نوجوان بلوچ نسل میں بہت مقبول ہیں۔ آپ کا پہلا مجموعہ کلام ” سر رشیں انڑ س ” ہے جس میں چوبیس غزلیں ستر کافیاں ،کچھ رباعیات ایک نازنیک( لوری)شامل ہے یہ کتاب 1994ء میں آپ کے دوستوں کے تعاون سے شائع ہوئی جبکہ دوسرا مجموعہ کلام” گنوخی ئے دوانیستیں ” جس میں تمام اصناف مثلا غزل ، رباعیات قطعات، کافیاں ، نظمیں ،گیت اور چنددعائیں شامل ہیں ۔آپ کی یہ کتاب 108صفحات پر مشتمل ہے جو کہ 2011ء میں بلوچی اکیڈمی کوئٹہ نے شائع کی۔ آپ کی پہلی کتاب میں کتابت کی چند غلطیاں تو پائی جاتی ہیں مگر ادبی اور علمی حوالے سے یہ ایک شاہکار ہے۔ آپ کے دوسرے مجموعہ کلام کی اشاعت میں بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے جناب محمد پناہ بلوچ کا اہم کردار ہے ۔محمد پناہ صاحب کا یہ قدم انتہائی قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ استاد مندوست کی دونوں کتابیں بلوچی ادب کے لئے ایک عظیم اثاثہ ہیں۔ آپ کے کلام کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ آپ نے روایتی قصہ گوئی اور مداح سرائی سے ہٹ کر بلوچی شاعری کو جدید اصناف سے روشناس کرایا ۔چنانچہ آپ کے کلام میں روایتی رمز نگاری کے ساتھ جدید ادبی استعارات و تلمیحات سے مر صع غزلیں اور نظمیں ملیں گی۔ اسی طرح آپ نے بلوچی زبان میں کافی کی صنف میں بھی نہایت خوبصور ت رنگوں میں تصوف اور عاقلانہ باتیں لکھیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ استاد مندوست کے کلام میں جا بجا زلف و رخسار کی تابانیاں ، ساغر و مینا کی ولو لہ انگیزیاں اور نگاہ لیلیٰ وش کے تذکرے مسحور کر دیتے ہیں۔ آئیے آپ کو اختصار کے ساتھ استاد مندوست کے کلام کی چاشنی چکھاتے ہیں :
خدا واسطہ مرو خاں را دوائے جکھ کثئی آبرو فقیراں نی
اے جُھگڑی اے ژہ جھاتی ء جھزی آبرؤ
گنوخیں دل ہمے لوٹی کہ دیر واری مں گندا نے
مذئے مہرا، مخن ٹوکا ، تہ بے شک لاتکی آبرؤ
ہمے تڑسا مخن دلبر کہ زوری کھس نداری سے ژء منٹ ء جکھ تھہ دیماڈس ہمے پازاں شزی آبرو
*****
تھئی دف گلابی ایں تھی دست گلابی
تھئی مہر چمن و گمبر مست گلابی
تھئی جیغ سرا سیاہیں شفء بام دا رنگا
بی لعلی ء لب لعل زبر دست گلابی
قارئین کرام پھر ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کے کلام کو سبز علی بگٹی نے اپنی مدھر آواز کے ذریعے ایک نیا رنگ دیا بس پھر کیا تھا آپ کے گیت غزلیں ہر طرف دھوم مچانے لگیں اس وقت تک سبز علی اپنی مسحور کن آواز میں آپ کے ہزاروں ایسے گیت بھی گا چکا ہے جو پاکستانی یا انڈین گانوں کی طرز پر لکھے گئے اب تو مندوست اور سبز علی مرہٹہ لازم و ملزوم بن چکے ہیں ۔ایک طرف سبز علی نے اپنی گداز بھری آواز میں استاد مندوست کے کلام کو بام عروج پر پہنچایا تو دوسری جانب آپ کا کلام گا کر اپنے آپ کو بھی ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔
استاد مندوست بلوچی ادب کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک بار نواب اکبر بگٹی نے ان کو اپنی محفل میں میں بلا کر کر ان کا کلام سنا اور کھڑے ہو کر آپ کو سلام کیااور دو ہزار روپے انعام دیا۔ مندوست جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان جیسے لوگوں کی سر پرستی کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بھر پور کوششیں کی جائیں کیوں کہ ایسے لوگ کسی خاص قوم یا قبیلہ کے نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے سرمایہ ہیں ۔