اپنے ہی خون میں ڈوبا ایشیا یہ تصور تک نہیں کرسکتا کہ دنیا کس سرعت سے تبدیل ہورہی ہے ۔ انہونیاں ہورہی ہیں۔ وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی کربناکی، اوریورپ میں ایشیا ہی کی جانب سے اکا دکا دہشت گردی کے واقعات کو چھوڑ کر ، پوری دنیا مستقبل کی جانب حیرت انگیزسرعت کے ساتھ مارچ کر رہی ہے۔
اور یہ سب گذشتہ ربع صدی سے بھی کم عرصے میں ہوا۔ کولڈ وار امریکہ کے’’ جمہوری فاشزم ‘‘کاایک مظہر تھا جس کے تحت محض اُسی کا نظریہ، اُسی کا راستہ ٹھیک ہے۔ کوئی اور شخص یا ملک کچھ بھی مختلف سوچے تو اُس پہ فتوے جاری کرو، اس کا بلا کیڈ کرو اور سرد جنگ رائج کردو۔یہی کچھ ہوتا رہا، دنیا میں۔
اُس کولڈوارکے خاتمے نے انسانی معاشرے کے ارتقا کی راہ میں کھڑی چٹان کو تڑاخ سے توڑدیا۔اب سرمایہ داری ہر طرح کے خارجی نظریاتی تضاد سے آزاد ہے۔ اُس کے اپنے نیوکلیس کے اندر موجود تضادات کے آگے سے بھی سوویت یونین نام کا بہانہ ہٹ گیا اور اب دنیا اس گلوبل سرمایہ داری نظام کے داخلی تضادات کی نعمتوں سے سرفراز ہوگی۔ چنانچہ آج انسان اسباب و علل کو ناپتا تولتا، مانتا نہ مانتا، تحریف ترمیم کرتا، ایسی منزل کی جانب رواں ہے جسے یوٹوپیائیوں نے تصور کیا تھا ۔درست ہے کہ یہ راہ سیدھی ،اور سڑک اچھی نہیں ہے۔ اس میں ٹانگ توڑ کھڈے کھائیاں ہیں ، گردن توڑ جمپ اور اندھے موڑ ہیں ۔مگر راہ ہے کہ آگے کی طرف کھسکتی ہی چلتی جاتی ہے۔
سیاست میں بورژوا جمہوریت اب لولاکی نظام کے بطور دنیا کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں پکڑ چکی ہے۔ متبادل ،یعنی سوشلسٹ جمہوریت سکڑ کر ایک درجن ممالک تک محدود ہوچکا ہے۔ بورژوا جمہوریت اپنے مالک طبقہ کے حق میں خوب خوب چالاکیاں کرتی رہتی ہے۔ مگر ٹریڈ یونینیں ، ماحولیات دوستی اور ، بنیادی انسان حقوق کی ضمانتیں لینے کی تنظیمیں، گروپس اور انفرادی آزاد روحیں سائے کی طرح اُس کا پیچھا کرتی نظر آتی ہیں۔
چنانچہ ایک دہائی قبل تک امریکہ کا صدر کسی سیاہ فام کو بنتے کسی نے سوچا بھی نہیں نہ تھا۔ مگر پھرہم سب نے دیکھا کہ نہ صرف ایک سیاہ فام شخص امریکہ کا صدر بنا بلکہ امریکی معیار کے مطابق کامیابی کے ساتھ اُس ملک کو چلاتا رہا جس کی طاقت بے حدو حساب ہے۔ وہ اس بھرپور اقتدار میں نہ پچھلے صدور سے زیادہ احمق ثابت ہوا،اور نہ کمتری کے معمولی احساس تک کا شکار ہوا۔
شام، عراق اور لیبیا میں امریکی تباہ کن پالیسیوں کے پس منظر میں امریکہ کی ایران سے تعلقات بنانا بھی کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا ۔مگر ایسا ہوا۔ ایران ایٹم بم سے باز آیا اور امریکہ اور یوپ نے معاشی سیاسی ثقافتی ناکہ بندی ختم کرکے دنیا بھر سے روابط و لین دین کے دریا اس پرکھول دیے۔ نتیجے میں،پورے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیاں بدل رہی ہیں۔ سعودی اپنے اتحادی بادشاہوں کے ساتھ اپنے تاج و تخت کی بقا کے سرسام میں مبتلا ہے۔ عرب عوام زمین پہ بوجھ شیخوں سلطانو ں سے نجات پانے کو جہداں ہیں۔
بھلا کوئی سوچ سکتا تھا کہ آگ اورپانی ، یعنی امریکہ اور کیوبا مل سکتے ہیں؟ ۔وہ کیوبا جس کے انقلاب کے دن ہی سے اور اس کے بعد آنے والے کولڈ وار کے پورے دور میں ہر امریکی حکومت ایڑھی چوٹی کا زور لگاتی رہی کہ اس سوشلسٹ حکومت کونیست و نابود کیا جائے ۔اس دشمنی کی جڑیں بہت گہری اور تلخ ہیں۔اُس دشمنی کی ایک وجہ تھی۔ وہ یہ ،کہ امریکہ دنیا کا سپر پاور ہونے کے باوجود اپنے عوام کو وہ سہولتیں نہ دے پایا جو کہ پڑوس میں چھوٹے سے ملک کیوباکی حکومت اپنے عوام کو دے رہی تھی۔ کیوبا میں تعلیم اور صحت مفت بھی ہے اور دنیا میں سرِ فہرست بھی ہے۔ وہاں سوفیصد روزگار ہے۔ صنفی امتیاز ختم ہوچکا ہے۔کیوبائیوں نے نہ صرف اپنے ملک میں نسلی امتیاز ختم کردیا بلکہ، انگولا اور جنوب افریقہ میں بھی اس مرض کے خاتمے کی فیصلہ کن جدوجہد کی۔ کیوبا میں سب بچے سکول جاتے ہیں، کوئی چائلڈ لیبر موجود نہیں ہے۔ قتل و قتال اور چوری چکاری کے سارے وجوہات ختم کردیے گئے ہیں۔
امریکہ ، اپنی ناک کے نیچے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کا گلاگھونٹ کر مار دینا امریکہ کی ساری حکومتوں کا ایجنڈہ نمبر ایک رہا۔
چنانچہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی طرف سے ساٹھ سال تک مسلط رہنے والی آہنی ، بے پایاں اور نا ترس معاشی ناکہ بندی، صنعتی اور زرعی سبوتاژ ، اور دہشت گردی کے واقعات نے ہزاروں لاکھوں کیوبائیوں کو متاثر کیا۔
اِسی امریکہ اور کیوبا کوہم نے ملتے دیکھاہے۔نہ صرف ملتے دیکھا بلکہ ہم نے سپر پاور امریکہ، سامراج کے سرغنہ امریکہ ،کے صدر کو چے گویرا کی تصویر کے نیچے باادب کھڑے ہوتے دیکھا۔ اُسے سوشلسٹ کیوبا کا قومی ترانہ گنگناتے دیکھا۔ اچھا! یہ ہم کسی ہارجیت کے پیرائے میں نہیں کہہ رہے۔
کیوبا کی جانب سے چکائی ہوئی قیمتیں یا ابھی چکائی جانے والی قیمتوں کا تذکرہ بھی چھوٹی بات ہوگی۔ ہم دنیا میں کوانٹٹی والی تبدیلیوں کی نہیں بلکہ صفتی تبدیلیوں کی بات کررہے ہیں۔ کیوبا ،کوکاکو لا پیئے گا یا نہیں، یا وہ اپنے سگار امریکہ کو دے دے گا یا نہیں؟، یہ بحث بھی بہت ہی خام اذہان کے چھیڑے ہوئے ہیں۔ بھلا یہ بھی پوچھنے کی بات ہے کہ کیا وہ اپنے اُن حقوق اور روحانی دولت کو سرنگوں کردے گا جنہیں اس نے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی ترقی کے ذریعے جیتا ہے؟۔
یہاں ہم کسی عام ملک کی بات نہیں کررہے ۔ہم تو اُس کیوبا کی بات کررہے ہیں جو اپنے انقلاب کے لیے لمحہ لمحہ لڑا، جس نے انقلاب کے حاصلات کے ایک ایک سنٹی میٹر کی چوکیداری کی، اور جو بین الاقوامیت پسندی میں دنیا کا اولین نمبر حاصل کرچکا ہے۔ یہ شاید بحث کی باتیں ہیں ہی نہیں۔ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اوبامہ کے دورے سے زبردست اثر یہ ہوگا کہ کیوبائی عوام کو جان بچانے والی دوائیاں اب قیمتاً مل سکیں گی۔90 میل دوری پہ موجود اِن دو ممالک کے خاندان بچھڑے ہوئے تھے، اب اپنے، اپنوں سے مل پائیں گے۔ اورثقافتی رشتے استوار ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی کلچرل سطح بلند ہوگی۔
کیوبا وہ ملک ہے جسے سوشلسٹ انقلاب کی پاداش میں پوپ نے عیسائی دنیا سے خارج کررکھا تھا۔ اب وہی پوپ کا ادارہ اپنا فتویٰ اپنے چوغے میں واپس لپیٹ کر امریکہ اور کیوبا کو قریب لایا۔ فیڈل کاسٹرو کی جان لینے کی 600 سے زیادہ کوششیں کرنے والا امریکہ اپنے صدر کو بیوی بچوں سمیت تین تک اسی کاسٹرو کا مہمان بنا کر بھیج چکا۔۔۔۔۔۔ کولڈوار کے بقایا جات کا آخری آتش فشاں بھی خاموش کرایا جارہا ہے۔ارے بھئی۔معروض کے معجزے ہیں یہ۔
اور بلاشبہ اس سارے عمل میں صدر اوبامہ کارول کسی صورت کم نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ اُس نے معروض کو پڑھا، اوروہ آدھی صدی کی دشمنی سے اوپر اٹھا، اپنے ملک میں رائٹ اور لیفٹ مخالفت کے طوفان کے سامنے ڈٹ گیا۔ یہ اُس کے دورِ صدارت کے بہی کھاتے میں نمایاں طور پر مثبت کے خانے میں درج ہوگا۔

ہم جانتے ہیں کہ ناخوش روحیں تنقید کا کوئی پہلو ضرور نکال لائیں گی۔ بے مائیگی ہمہ وقت بے مائیگی کی طلب اور خواہش میں رہتی ہے۔ خون کی بُو کو پسند کرنے والے لوگ’’ آدم بو‘‘ کو جاری رکھوانے کے لیے اپنے پیروں مرشدوں کو پکارتے ہی رہیں گے ۔ جنہیں گھن گھرج میں سونے کی عادت ہو انہیں گلا ب اور نسیم موت لگتے ہیں ۔جن لوگوں کو دنیا میں کسی مثبت چیز کی آہٹ بھی بے نیند و بے آرام کرڈالتی ہو اُن کے خراب پیٹ اتنی بڑی تبدیلی کو کیسے ہضم کر پائیں گے؟ ۔ یہ بھی دیکھیے کہ امنِ انسان کے ویری، پرامن دنیا کے دشمن محض امریکہ میں ہی نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کے اتحادی اور ماماچاچا توہر دیس کے ہر شہر کی ہر گلی کے ہر نکڑ پر ملتے ہیں۔ عورت کے حقوق، ماحولیات کی صفائی پاکیزگی اور شانتی کے ساتھ سائنسی سہولتوں کو انسان کے دسترس میں آنے کے مخالف صرف دائیں بازو کے لوگ ہی نہیں ہوتے، لیفٹ کی طرف سے بھی ایسا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر شیطانیت دشمن انسانی عزم کے ریلے نہ لیفٹ تبصرہ نگار کو رہنے دیں گے اور نہ رائٹ فتوی ساز کو۔حق کا راستہ ہر فریم ہر چوکھاٹ اور ہر رکاوٹ کے خلاف بپھرا سیلابی ’’ نہنگ‘‘ دریا بن جاتا ہے۔

کتنا اچھا لگتا ہے جب انسان بقائے باہم کا مہذب طریقہ اپناتے ہیں۔ باہمی احترام سے پیش آتے ہیں، صبر سے دوسرے کی بات سنتے ہیں، دھیمگی سے دوسرے کو اپنی بات سناتے ہیں اور کمال تخلیقیت سے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔
اور انسان نے انسانیت کی اب تک کی ایک بڑی چھلانگ یوں لگائی کہ امریکہ کیوبا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاگیا۔
اُس نے اگر نیک نیتی سے ایسا کیا تو بیابانوں کے شہ مرید اس کی مدد کو آئیں گے۔ اوراگر وہ بد نیتی سے لاطینی امریکہ میں ایک دوسرا چین پیدا کرنے کے لیے ایسا کررہا ہے تو انسانی عقلِ سلیم اس بدنیتی کو جبیں شکنیوں میں ڈبو ڈالے گا۔۔۔۔۔۔۔ جبیں شکنی جو بلوچی لفظ’’ اِناّ‘‘سے بھی بڑی انکار ہوتی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے