آ رسی ڈی کونسل گوادر کے زیر اہتمام امسال بھی چار روزہ سا لانہ کتب میلہ کا اہتمام کیا گیا جس کاآ غاز 11فرو ری سے ہوا۔ کتب میلہ کا افتتاح گوادر کے ایم پی اے میر حمل کلمتی اور سا بقہ وفاقی وزیر تعلیم زبید ہ جلال نے مشترکہ طور پر فیتہ کاٹ کر کیا ۔ چا ر رو ز جاری رہنے والے اس کتب میلہ میں مختلف مو ضو عات کے حوالے سے پرو گرام تر تیب دےئے گئے تھے ۔ بلو چستان کے معروف مصور حفیظ گو ہر جی کے فن پاروں کی نمائش کی گئی۔ فن پاروں میں مقامی ثقافت اور رہن و سہن کو رنگوں کی زینت بنا دیا گیا تھا ۔ اس ادبی میلہ میں بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک اہلِ قلم اور دانشوروں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ میلہ میں انیسو یں صدی میں ساحل مکران میں سماجی و معا شی تبد یلیاں اور بحر ہند کی تجارت میں گوادر کا مقام کے مو ضو ع پر معر وف سوشل انتھر پو لو جسٹ ڈاکٹر حفیظ جمالی نے پر مغز پر یز نٹیشن پیش کیا جس میں گوادر کی سمندری تجارت اور جغر افیہ سمیت اس کی مسلمہ اہمیت کو تاریخی حوالا جات کے ذ ریعے سا معین کے سامنے پیش کیا گیا ۔میلہ کا دوسرا اہم سیگمنٹ گوادر میگا پر وجیکٹ اور ساحل مکران پر تبد یلی اور ترقی کے امکانات کے موضو ع کے حوالے سے ڈیبیٹ کا تھا ۔ڈیبیٹ میں ملک کے معروف صحافی وسعت اللہ خان، ڈاکٹر حفیظ جمالی، احمد اقبال، زبید جلال ، گوادر کے سیاسی و سماجی ورہنماؤں ڈاکٹر عز یز ، غفار ہوت اور فشر یز کے ما ہر احمد ند یم نے حصہ لیا ۔صحافی وسعت اللہ خا ن نے اپنے مخصوص انداز میں گوادر کے مستقبل کے حوالے دلا ئل پیش کیے جس کو سا معین نے پز یرا ئی بخشی ۔میلہ کے دوران بلوچی زبان میں تخلیق کیے گئے عثمان توکل کا شعری مجمو عہ ’’ تہلیں بینگ‘‘ اور بر کھا بلوچ کا بلوچی زبان میں سوال و جواب پر مبنی کتابوں کی ر ونما ئی بھی کی گئی ۔عثمان توکل کا شعری مجمو عہ جیو ز اور بر کھا بلوچ کی کتاب سچکان پبلکیشنز نے شا ئع کیے میلہ کے دوران جیوز گوادر کی جانب سے بلوچی زبان کے معر وف شاعر و ڈرامہ نگار مر حوم عطا ء شاد کی انیسویں بر سی کی مناسبت سے گوادر کے مختلف سر کا ری اور نجی اسکولوں کے طلبہ و طا لبات کے در میان تقر یر ی اور پینٹنگ کے مقابلے بھی کر ائے گئے۔ میلہ میں بلوچی زبان کے معروف افسانہ نگار منیر احمد با دینی نے بلوچی زبان میں افسانہ نگاری کی اہمیت کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور اسے بلوچی ادب کے لےئے نا گز یر قر ار دے دیا ۔ کتب میلہ کے دو ران ار دو او ر بلوچی زبان میں مشا عرہ کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں کر اچی سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کے علاوہ بلوچستان کے بلوچی زبان کے ادبا بھی شر یک رہے ۔ چار روز جاری رہنے والے سالانہ کتب میلہ میں مختلف مو ضو عات پر دلائل اور منطق کی بنیاد رپر کھل کر بحث کی گئی۔ میلہ میں فنکاروں نے کئی تھیٹر شو بھی پیش کےئے جو سا معین کی توجہ کا مر کز بنے رہے ۔ کتب میلہ میں خوا تین کا بھی جوش و خروش دیدنی رہا اور میلہ کا ایک دن اُ ن کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ کتب میلہ میں بلوچستان اور ملک بھر کے پبلشرز سمیت مختلف اداروں کے کتب اور مطبو عات نمائش میں رکھے گئے ۔ کتا بوں کی خر یدار ی کے سابقہ تمام ریکار ڈ ٹوٹ گئے۔ کتب میلہ میں تقر یباً ساڈھے چھ لا کھ روپے کی کتا بیں خر یدی گئیں جبکہ منتظمین کا کہناہے کہ چار روز جاری رہنے والے اس کتب میلہ میں چھ ہزار لوگوں نے اپنی شرکت ریکارڈ کرائی ۔ یہ بات الگ ہے کہ گوادر اوراس کا گر دو نواح اس وقت پینے کا پانی کے شد ید بحران کا شکار ہے مگر اس کر ب کے با وجود یہ سا لا نہ کتب میلہ کئی خوشگوار حیرتیں چھوڑ کر 14فروری کو اختتام پز یر ہو گیا جو اس بات کا غماز ہے کہ بلوچی ادب کے سر خیل مرحوم سید ظہور شاہ ہاشمی، مر حوم اما م بخش امام اور ماسٹر عبدالمجید گوادر ی کے جنم بومی سے وابستہ لوگ تر قی اور تبد یلی کے پر جوش نعروں کے بیچ حکومتی عدم توجہی اور نظر اندازی کے گھٹن کی پرواہ کیے بغیر کتاب ، ادب ، تا ریخ اور فلسفہ کا شید ائی اور علم و دانش کے کس قدر قر یب اور دیوانہ وار قر بت رکھتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے