مستیں توکلی کو ’’ طوق علی ‘‘ بننے سے بچانے کے لیے ڈاکٹر شاہ محمد مری کا دل سے شکریہ اور یقیناًمست توکلی اور سمو بیلی بھی ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دے رہے ہونگے۔
بچپن میں جب میری ماں ہم سب بہن بھائیوں کو کہانیاں سناتیں تھیں تو ان کے اندازِ بیاں کی وجہ سے کہانی کے کرداروں کو اتنا قریب محسوس کرتی کہ میں خود اُن کا حصہ بن جاتی، اُن کی زندگی جینے لگتی، کرداروں کے ساتھ روتی، اُن کی خوشی میں خوش ہوتی اور اُن کا درد محسوس کرتی۔۔۔۔۔۔
مستیں توکلی ایک ایسی ہی کتاب ہے کہ جس میں آپ مست اور مست کی سمو کی زندگی جینے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جوں جوں کتاب آگے کی منزلیں طے کرتی جاتی ہے آپ کبھی سمو اور کبھی مست والی کیفیت طاری ہونے سے خود کو نہیں روک پاتے۔
لکھاری کا اندازِ بیاں مُجھے ہر اُس واد ی، جنگل، پہاڑ، صحرا، پتھریلے راستوں، پیروں مزاروں ، ملکوں ملکوں، گلی کوچُوں کا سفر مست کے ساتھ طے کراتا رہا۔
مصنف نے بڑی عمدگی سے ’’ حُسن ‘‘ کو بیان کیا ہے ۔ کہ ’’ حُسن ایک مظہر ہے۔ ایک وصف ہے، ایک کیفیت ہے، حُسن وہی ہے جسے محبوب چُن لے‘‘۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی جب حُسن کی تعریف بیان کرتے کرتے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ’’ ملکۂ حُسن‘‘کو منتخب کرنے والے سارے استحصالی عمل پر خوب لعن طعن کی۔ یقیناًسمو کے تناظر میں حُسن کے معنے ہی دوسرے ہیں۔۔۔۔۔۔ مست کی مہر نے محبت نے حُسن کو نئے معنے دیے’’سبزو محبوبہ‘‘۔۔۔۔۔۔ یقیناً مصنف کا کہنا بجا ہے کہ ’’ اب حسن ایک کوالی ٹیٹو مظہر نہیں رہا بلکہ اسکو کو انٹی ٹیٹو بنایا جارہا ہے ۔ پتہ نہیں حُسن نا پنے کے لیے کیا کیا اوزان و پیما ئش و ضع کیے گئے ہیں‘‘۔اور خاص کر مصنف کا یہ جملہ عورت اور حُسن کو کمرشل بنانے والوں کے مُنہ پرطمانچہ ہے۔۔۔۔۔۔’’ ارے گز تو کپڑا ناپنے کے لیے ہوتا ہے، لیٹر پٹرول ناپنے کے لیے، مگر حُسن کو ناپنا۔۔۔۔۔۔ حُسن کی بے حُرمتی ہے ‘‘۔
مستیں توکلی کی محبت کا اظہار ہر پنے پر یوں بکھراپڑا ہے کتاب میں کہ اُسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے اُس پر لکھ کر اپنے احساسات کو بیان کرنا کم از کم میرے لیے آسان نہیں۔
عورتوں کی خودمختاری کو سمو کی مرہونِ منت بتا کر مری صاحب نے سمو بیلی کی محبت کو ایک الگ مقام دیا ہے۔
سمو بیلی کی محبت اور اُس محبت میں مگن مستیں توکلی کی انسانیت کے لیے کی جانے والی خدمات ؍ خدمتِ خلق کا ذکر محبت کی منزل کا تعین کرنے میں قابلِ ذکر عمل ہے۔
اگر مستیں توکلی کا دنیاوی ’’ اعتبار سے ‘‘ سے انت کا جائزہ بھی لیں تو اُن کی محبت آغاز سے انت تک محبت ہی محبت ، امن و مہر ہے۔
اور جو محبت کرتے ہیں انسانوں سے، فطرت سے ، انسانیت سے یہ وہی جانتے ہیں کہ محبت کا تو انت ہوتا ہی نہیں۔ وہ آغاز سے انجام اور پھر آغاز کی طرف تک کا سفر ہے یعنی مہر سے مہر اور پھر مہر ۔ اگر مستیں توکلی کتاب اور توکلی کی محبت کے تناظر میں موجودہ معاشرے میں ہم ’’ محبت‘‘ نامی شے کا جائزہ لیں تو معاملہ برعکس ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ محبت کا انت اذیت ناک نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مستیں توکلی نے محبت نا پاکر بھی منفیت کو ذہن میں پنپنے نہیں دیا نہ ہی کسی منفی رحجان کی طرف جُھکا حالانکہ مواقع بھی ملے ۔۔۔۔۔۔ اس کے برعکس مست سمو کی وجہ سے عورتوں کو ، اُس کی مشقت کو ، عورتوں کی بلوچ معاشرے میں مشقت کی تکلیفوں کو تسلیم کرتا ہے اور سمو بیلی کی وجہ سے ’’ کُل عورتوں‘‘ کو وہ عزت وہ مقام وہ درجہ دیتا ہے جو اُس سے پہلے اور مست کے بعد کسی نے نہ دیا کیونکہ سمو تو عورت نہیں سمو کی تو کُل عورت ذات ٹھہری۔۔۔۔۔۔
آج بہت سے نوجوان اپنی محبت کے حصول کی ناکامی پر اُس ہستی (عورت)پر ہی تیزاب پھینک رہے ہیں جس سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
یہ کسی محبت؟ یہ کیسا احترام؟ مست کی محبت تو ایسی نہ تھی۔۔۔۔۔۔
کاش یہ سب مست توکلی کو پڑھ لیں تو محبت اور عورت سے متعلق مثبت تبدیلی آئے ۔
مست توکلی کو صوفی اور مُلا بنانے کے عمل پر مصنف نے تنقید کرتے ہوئے بڑی دل چسپ منظر کشی کی ہے کہ کس طرح ایک ’’ استحصالی نظام‘‘ میں ایندھن کے طور پر مست توکلی تک کو جھونکنے میں ندامت محسوس نہیں کرتے۔
مست توکلی کے فرضی تصویر کشی پر حضرت عیسیٰؑ کی تصویر کشی سے بڑی خوبصورتی سے تشبیح دیتے ہوئے مصنف نے کچھ یوں تنقید کی کہ ’’ حضرت یسوع مسیح کی اُجلی ، چمکتی اور دل کش تصویر دیکھیں تو وہ آپ کو کسی بھی طرح سے سسٹم کا باغی چرواہا نہیں لگتا بلکہ رومن ایمپائر کا ایک بادشاہ نظر آتا ہے ۔ یسوع کی تصویر دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ بادشاہ کا ہنوں، فیوڈلوں کے خلاف لڑتا رہا ہے‘‘۔ مفاد پرست ادب مست توکلی کی تصویر بنا کر یہی کچھ دہرانا چاہتے ہیں۔
مست ہے کون نہ صوفی نہ مُلا۔۔۔۔۔۔ مصنف نے ایک جھنجھلاہٹ اور غصے میں مبتلا رکھاتا وقتیکہ آگے جاکر مست کے متعلق مست کی شناخت کے لیے اُن کے یہ جملے نظروں سے نہ گزرے جو دل پر اثر کر گئیں ۔ مصنف سوال کرتا ہے کہ مست ہے کون؟ پھر جواب بھی دیتا ہے کہ ’’ مست محبت ہے ، مست مہر ہے ۔ مست امن ہے ‘‘۔
لہٰذا جو مست سے عشق کرتا ہے اُس کے فلسفے کو مانتا ہے وہ ہر انسان خاص کر عورت کو اُس کا مقام دلانے کے لیے عملی کوششیں کرے گا۔ امن سے مہر سے مست کی طرح تاکہ مست زندہ رہے، سمو بیلی زندہ رہے ۔
مصنف مست کے فلسفے کو دو لفظوں میں بیان کرتا ہے’’ کہ مست کا سارا فلسفہ دو لفظوں سے پُھوٹا ہے ایک ’’ تلاش‘‘ دوسرا ’’ جدائی‘‘۔
مجھے بلوچی زبان سے نا واقفیت کا دُکھ اس کِتاب کو پڑھنے سے قبل کبھی نہیں ہوا مگر اس کتاب میں مست توکلی کی بلوچی شاعری کی چاشنی سے محرومی کا احساس ہر صفحہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا اور بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔ مگر بھلا ہو ترجمہ نگاری کا کہ کچھ نہ کچھ تشفی ممکن ہوئی۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری نے خود بھی جگہ جگہ اعتراف کیا کہ بلوچی کے بعض الفاظ ایسے ہیں کہ اگر ان کا ترجمہ اردو یا انگریزی میں کیا جائے تو وہ اس کا نعم البدل نہیں بن سکتے جیسے ’’ بلوچی میں مستعمل ‘‘ زہیر ’’ کا لفظ ’’ یاد‘‘ سے کئی گنا زیادہ گہرا اور نازک بتایا گیا ہے۔
مصنف نے جہاں سمو بیلی اور مست توکلی کا گرویدہ بنا ڈالا وہاں پر ’’ جام دُرک‘‘ اور ’’ بیورغ‘‘ کا ذکر مختصراً کرکے تجسس اور تشنگی میں اضافہ کر گیا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری مستیں توکلی کو ’’ کمرشل ‘‘ ہونے سے بچانے کے لیے جگہ جگہ لڑتے ، جھنجھلاتے ، دھمکی دیتے بھی نظر آتے ہیں جو مست توکلی سے، اُن کے فلسفے سے اُن کی محبت عقیدت اور دیوانگی کی حد تک وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
چند جملے جو وہ مست کے لیے لکھتے ہیں کچھ یوں تھے ’’ بلوچستان میں ہمارے پاس یہ اکلوتا وَلی ہے، اُسے بھی سرکار کے حوالے کرنا خود کو دیوالیہ بنانا ہے ۔ اُسے عوام کے پاس ہی رہنے دیا جائے ‘‘۔
’’ آپ لاکھ صوفی کانفرنسیں کریں، صوفی موسیقی کی بین الاقوامی مجلسیں منعقد کریں ہم اپنے مست کو آپ کے حوالے نہیں کریں گے‘‘۔
آخر میں اتنا ہی کہونگی کہ ’’ مستیں توکلی‘‘ ایک ایسی کتاب جس میں بیک وقت
ذرے سے ’’ کُل کائنات‘‘
سمو مائی سے کُل عورت
جنگ سے امن
نفرت سے محبت
استحصالی قوتوں سے آزادی
محبت سے محبت تک کا سفر ہے
ضرور پڑھیں۔