وفا کی راکھ ستاروں میں لپیٹی میں نے
شبِ فراق تو آنکھوں میں لپیٹی میں نے
یوں رتجگوں کے عذابوں میں دیکھا اپنوں کو
تو اپنی نیند لفافوں میں لپیٹی میں نے
ہر ایک بار تیری سمت جانے سے پہلے
میری نگاہ دعاؤں میں لپیٹی میں نے
یہ میرا گھر جو چمکتا ہے ستارے جیسا
شعاع تھی ایک شعاعوں میں لپیٹی میں نے
پھسل کے دور تلک پھیل گئی نور تلک
ذرا سی ریت جو ہاتھوں میں لپیٹی میں نے
زمیں تلک جو پہنچتی تو قیامت لکھتی
فلک کی چیخ خلاؤں میں لپیٹی میں نے
کہ جس نے شر میرا اوروں سے چھپا کر رکھتا
اسی کی خیر بلاؤں میں لپیٹی میں نے
دیارِ دھوپ میں خوابوں کے جھلسنے کے بعد
حیات سرد علاقوں میں لپیٹی میں نے
خود اپنے آپ کو مٹی سے ڈھک لیا ایسے
صدا بھی تھی تو غلافوں میں لپیٹی میں نے