اطالوی کہانی

نیپلز میں ٹرام کے ملا زمین نے سٹرائک کر رکھی تھی ۔ ریویرا دی کیایا کے ایک سر سے سے دوسرے سرے تک خالی ٹراموں کی ایک قطار لگی ہوئی تھی اور کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی ۔ ان زندہ دل ، باتونی اور پارے کے طرح بے تاب اور پھر تیلے نیپلز یوں کی ۔ ایک بڑی تعداد پیازا دیلا و یتوریا پر جمع ہو گئی تھی ۔ ان کے سروں سے اوپر اور پارک کی پاڑ کے اوپر ایک فوارہ ، تلوار کے نازک پھل کی مانند ، چمک دمک رھا تھا اور ان کے ارد گرد ایک بڑسا مخالفانہ مجمع ایسے لوگوں کا جمع ہو گیا تھا جنہیں اس وسیع و عریض شہر کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے کام سے جانا تھا اور یہ سب دوکان داروں کے مد د گار ، درزنیں ۔ دستکار اور سودے والے زور زور سے سٹرائک کر نے والوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے ۔ تیز تیزالفاظ اور چبھتے ہوئے فقرے ایک دوسرے کو کہے جا رہے تھے اور ہاتھ ہلا ہلا کر خوب خوب اشارے ہو رہے تھے کیونکہ نیپلز و الے اپنے ہاتھوں سے بھی اسی قدر زور اور فصاحت کے ساتھ بولتے ہیں جتنا اپنی ان تھک زبانوں سے بولتے ہیں ۔
سمند ر سے ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آ رہے تھے ۔ شہر کے پارک میں لمبے لمبے پام کے درختوں کے گہرے سبز رنگ کے پتے اور ڈالیں آ ہستہ آ ہستہ جھوم رہی تھیں اور ان کے تنے بہت ہی بڑے بڑے ہاتھیوں کی بھدی ٹانگوں سے مشابہ معلوم ہو رہے تھے ۔ لونڈے لا رے ، نیپلز کی سڑکوں کے نیم عریاں بچے ، فضا کو اپنے قہقہوں اور چہچہوں سے بھرتے ہوئے ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔
شہر ، جو ایک قدیم کندہ کاری کی تصویر کی مانند معلوم ہوتا تھا ، جلتے تپتے سورج کی ان گنت شعاعوں میں نہایا ہو اتھااور ارغنوں کی طرح نغمہ سرا تھا۔ خلیج کی نیلی موجوں کی پتھر یلے ساحل سے ٹکرانے کی آ واز شہر کی غل شور اور چیخ پکار میں ایک دبی دبی ، طنبورے کے ارتعاش سے ملتی جلتی آ واز کا اضافہ کر رہی ہے۔
سٹرائک کرنے والے آ زردگی اور افسردگی سے ایک دوسرے سے ملے ملے کھڑے ہیں اور مجمع کی چڑ چڑی چیخوں کا مشکل ہی سے کوئی جواب دے رہے ہوں تودے رہے ہوں ۔ ان میں سے بعض پارک کے جنگلے کے اوپر چڑھ کر ، فکر مندی سے لوگوں کے سروں کے پار، سڑک کی طرف دیکھ رہے ہیں اور شکاری کتوں سے گھرے ہوئے بھیڑیوں کے ایک غول کی طرح دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ ان وردی پوش لوگوں کو اپنی بات پر اڑے رہنے کے عزم مصمم نے ایک ہی بندھن میں باندھ دیا تھا ۔ لیکن مجمع کے اپنے فلسفی موجود تھے ۔ پر سکون انداز سے سگریٹ پیتے ہوئے وہ سٹرائک کرنے والوں کے زیادہ جو شیلے مخالفوں کو اس طرح سمجھا بجھا رہے تھے :
’’اوہ ، جناب ! اگر آ دمی اپنے بچوں کے لئے ما کارونی بھی مہیا نہ کر سکے تو آ خر وہ کیا کرے ؟‘‘
میونسپل پولیس کے بنے ٹھنے ایجنٹ اس بات کا خیال رکھنے کے لئے دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے ہوئے تھے کہ مجمع گاڑیوں کی آ مد و رفت میں حارج نہ ہو۔وہ مکمل غیر جانب داری کا مظاہر ہ کر رہے تھے ، برا کہنے اور برا سننے والوں سب کوا یک ہی سے سکون اور طمانیت کے ساتھ دیکھ رہے تھے اور جب چیخیں اور ہاتھ کے اشارے بہت زیادہ گرم اور پر جوش ہو جاتے تھے تو وہ دونوں ہی طرف کے لوگوں کو خوش مزاجی سے ڈانٹ پھٹکار دیتے تھے ،گھڑسوار سپاہیوں کا ایک دستہ اپنی چھوٹی اور ہلکی رائفلیں لئے ہوئے ایک تنگ سی گلی میں عمارتوں سے لگا ہوا زیادہ گمبھیر ٹکراؤ ہو جانے کی صورت میں مدخلت کرنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ اپنی سہ گوشیہ ٹوپیوں ، چھوٹے چھوٹے لبادوں اور خون کی لکیروں کی طرح کی دو دو ارغوانی رنگ کی دھاریوں والے پاجاموں میں ملبوس یہ گروپ خاصا منحوس معلوم ہو رہا تھا۔
جھڑپ، جھگڑے ، لعن طعن ، سمجھانا بجھانا ، طنز و ملامت سب کچھ یکبار گی بند ہو گیا ۔ مجمع میں ایک نئی اور گویا سکون بخش سپرٹ پیدا ہو گئی ۔ سٹرائیک کرنے والے افسردہ نگاہی کے ساتھ ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے اور مجمع میں سے ایک آواز بلند ہوئی :
َ’’فوج!‘‘
سٹرائک کرنے والوں پر طنزیہ اور فتح مندانہ سیٹیاں بجائی گئیں اور ان کی آ وازیں خیر مقدم کے نعروں کے ساتھ مل جل گئیں ۔ ہلکے جستی رنگ کے سوٹ اور پناما ہیٹ میں ملبوس ایک فربہ اندا م شخص ایک دم اچھلنے لگا اور اپنے پاؤں پتھر یلے فٹ پاتھ پر مارنے لگا۔ کنڈکٹر اور ڈرائیور مجمع کے درمیان سے دھیرے دھیرے
گزرتے ہوئے گاڑیوں کی طرف بڑھے اور ان میں سے کچھ اوپر بھی چڑھ گئے ۔ مجمع میں سے گزرتے ہوئے اور اپنے چاروں طرف کے فقروں اور چیخوں کے تیز تیز جواب دیتے ہوئے وہ اور بھی زیادہ افسردہ جاں معلوم ہو رہے تھے ۔ شوروغل کم ہو گیا تھا۔
سانتا لوچیا ساحل کی طرف سے چھوٹے چھوٹے ، خاکستری سپاہی سبک رفتاری سے چلے آ رہے تھے ، ان کے قدیم تال دے رہے تھے ۔اور ان کے بائیں بازو میکانکی طریقے سے جھول رہے تھے۔وہ ٹین کے سپاہی معلوم ہورہے تھے اور کھلونوں کی طرح کمزور۔ ان کی قیادت ایک دراز قد خوبصورت افسر کر رہا تھا جس کی بھویں چڑھی ہوئی تھیں اور ہونٹ ایک حقارت آ میز انداز میں مڑے ہوئے تھے ۔ اس کے نزدیک ہی ایک لمبا سا ہیٹ اوڑھے ہوئے فربہ اندام شخص بے حد باتیں کرتا ،اور ہوا کو ان گنت ہاتھ کی جنبشوں اور اشاروں سے چیرتا ہو پھد کتا چلا جا رہا تھا۔
مجمع گاڑیوں سے دور ہٹ گیا۔ سپاہی خاکستری موتیوں کی طرح ادھر ادھر بکھر گئے اور گاڑیوں کے پلیٹ فارموں کے پاس ، جہاں سٹرائک کر نے والے کھڑے ہوئے تھے ، جا کر استادہ ہو گئے ۔
لمبے ہیٹ والا آ دمی اور دوسرے کئی معزز صورت لوگ ، جو اس کے ارد گرد کھڑے تھے ، پاگلوں کی طرح اپنے ہاتھ ہلانے اور چلانے لگے :
’’آ خری بار۔۔۔ آ خری بار! سنتے ہو؟‘‘
افسر اپنا سر ایک طرف جھکائے ، ایک اکتائے ہوئے سے انداز میں کھڑا اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔وہ آ دمی اپنا لمباہیٹ ہلاتے ہوئے اس کی طرف دوڑا اور بیٹھی ہوئی سی آواز میں چیخ کر کچھ کہا۔ افسر نے اسے کنکھیوں سے دیکھا ، پھر تن کر کھڑا ہو گیا ، اپنا سینہ نکالا اور ایک اونچی آ واز میں احکام دینے لگا۔
تب سپاہیوں نے کود کود کر گاڑیوں کے پلیٹ فارموں پر چڑھنا شروع کیا ۔ ایک ایک پلیٹ فارم پر دو دو سپاہی ۔ اور ڈرائیور اور کنڈکٹر ایک ایک کر کے اترنے لگے۔
مجمع کو یہ بات مضحکہ خیز معلوم ہوئی ۔ اور وہ چیختے ، ہنسنے اور سیٹیاں بجانے لگا ، مگر یکا یک شوروغل مدہم پڑ گیا اور لوگ خوف و دہشت سے پھٹی ہوئی آ نکھوں اور آ زردہ چہروں کے ساتھ ، گہری خاموشی سے گاڑیوں سے دور ہٹ گئے اور سب سے اگلی گاڑی کی طرف جمع ہونے لگے ۔
وہاں ،گاڑی کے پہیوں سے دو انچ کے فاصلے پر، ایک ڈرائیور پٹری پر لمبا لمبا پیٹھ کے بل لیٹا ہو اتھا ۔ اس کا سفید سر کھلا ہوا تھا، اس کا چہرہ ایک سپاہی کا سا تھا اور اس کی مونچھیں غصے سے پھڑک رہی تھیں اور ان کا رخ آ سمان کی سمت تھا۔ مجمع منہ کھولے اس منظر کو دیکھ ہی رہا تھا ایک بندر کے سے پھر تیلے اور مختصر لڑکے نے بھی خود کو ڈرائیور کے برابر زمین پر گرا دیا اور اس کے بعد ایک ایک کر کے کئی اور لوگوں نے بھی یہی حرکت کی ۔
مجمع میں سے ایک ہلکی ، بھنبھناہٹ کی سی آ واز پیدا ہوئی ، کچھ لوگ ڈر ے سہمے کنواری مریم سے دعا مانگنے لگے ، کچھ خفگی سے کوسنے پیٹنے لگے ، عورتیں چیخنے اور کراہنے لگیں اور لونڈے مارے جوش اور مسرت کے ربر کی گیندوں کی طرح اچھلنے لگے ۔
لمبے ہیٹ والے آ دمی نے ایک ہسٹیر یائی آ واز میں چیخ کر کچھ کہا ، افسر نے اسے دیکھا اور اپنے شانے ہلا دیے۔ اس کے سپاہی ٹرام کے ملازموں سے لے کر ٹرامیں اپنے قبضے میں کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے لیکن اس کوسٹرائک کرنے والوں سے لڑنے کا حکم نہیں ملا تھا۔
تب لمبا ہیٹ ، چند اور خدمت خلق پر تلے ہوئے شہریوں کی معیت میں گھڑ سوار سپاہیوں کی طرف دوڑا اور پھر گھڑ سوار سپاہی اس ارادے سے پٹریوں پر لیٹے ہوئے لوگوں پر جھکے کہ انہیں وہاں سے ہٹا دیں ۔
اب کشمکش شروع ہوئی ، لیکن یکبارگی تماشائیوں کا پورے کا پوارا بھورے رنگ کا گرد آ لود مجمع متحرک ہوا، چیخا ، دھاڑا اور پٹریوں کی طرف دوڑ پڑا ۔ پناما ہیٹ والے شخص نے اپنا ہیٹ اتا رلیا اور اسے ہوا میں اچھال دیا اور وہ سب سے پہلا آ دمی تھا جو آ خر میں لیٹے ہوئے سٹرائک کر نے والوں کے برابر زمین پر جا لیٹا اور اس کے شانے تھپکنے اور اس سے دل بڑھانے والے الفاظ کہنے لگا ۔
ایک ایک کر کے لوگ پٹریوں پر لیٹنے لگے ، گویا ان کی ٹانگیں جواب دے رہی ہوں ۔ زندہ دل ، پر شور ، باتونی قسم کے لوگ جو ابھی دو ہی منٹ پہلے تک وہاں موجود بھی نہ تھے ۔ وہ زمین پر لیٹ گئے اور ہنسنے، ایک دوسرے کا منہ چڑانے اور افسر سے چیخ چیخ کر کچھ کہنے لگے جو اونچے ہیٹ والے شخص سے مصروف گفتگو تھا اور خفیف سی مسکرا ہٹ کے ساتھ اس کی ناک کے نیچے اپنے دستانے ہلا رہا تھا اور اپنے خوبصورت سر کو جھٹک رہا تھا۔
اور زیادہ لوگ پٹریوں پر لیٹتے گئے ۔ عورتوں نے اپنی ٹوکریاں اور بنڈل زمین پر گرا دیئے ، چھوٹے چھوٹے لڑکے ، مارے ہنسی کے بے تاب تھر تھراتے ہوئے پلوں کی طرح سکڑ سکڑ کر پڑ گئے ، اچھی بھلی معقول پوشاکوں میں ملبوس لوگ بھی گرد و غبار میں لوٹ لگانے لگے۔
اگلی گاڑی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے پانچ سپاہی پہیوں کے آ س پاس پڑے ہوئے جسموں کے ڈھیر کو دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے اور سہارے کے لئے سلاخوں کو پکڑے ہوئے تھے ، وہ اپنے سر پیچھے ڈال دیتے تھے اور پھر آ گے کی طرف جھک جاتے تھے اور ان پر ہنسی کا دورہ سا پڑا ہو اتھا ۔ اب وہ قطعی ٹین کے سپاہی نہیں معلوم ہو رہے تھے ۔
۔۔ آ دھ گھنٹے بعد ٹرامیں کھڑ کھڑاتی ، دھڑ دھڑاتی نیپلز کی سڑکوں پر چل رہی تھیں اور پلیٹ فارموں پر فاتح کھڑے تھے جن کے چہرے مارے خوشی کے کھل اٹھے تھے اور نیچے بھی فاتح چل رہے تھے اور شائستگی سے لوگوں سے پوچھ رہے تھے :
’’بیلیتی ؟!‘‘
اور مسافر آ نکھیں مار مار کر ، مسکرا مسکرا کر اور خوش مزاجی کے ساتھ بڑ بڑاتے ہوئے انہیں لال اور پیلے نوٹ پکڑا رہے تھے ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے