سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ کی ایگزیکٹو باڈی کا اجلاس مورخہ5 فروری ساڑھے تین بجے سہ پہر مری لیب میں جاوید اختر کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، جاوید اختر ،ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو، فرخندہ جمالدینی، عصمت خروٹی، وحید زہیر اور اے ڈی بلوچ نے شرکت کی۔ اجلاس کا ایجنڈا مندرجہ ذیل تھا ، جو زیر بحث آیا اور اکثریت رائے سے منظور ہوا۔
-1 فروری اور مارچ کی سنگت پوہ زانت نشستوں کی تیاری، طریق کار وغیرہ کے بارے میں مشاورت اور تجاویز
-2 ایگزیکٹو باڈی میں نئے ارکان کی شمولیت کے بارے میں فیصلہ۔
-3 سنگت منشور میں دفعہ نمبر5 کے تحت آرٹیکل نمبر6 کا اضافہ، جس کے تحت کسی دوسری سیاسی اور ادبی تنظیم کا عہدیدار سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے کسی ادارے کا عہدیدار نہیں ہوسکتا۔
ایجنڈے کے پہلے نکتے پر بحث ہوئی اور اکثریت رائے سے یہ طے پایا کہ فروری کا سنگت پوہ زانت 21 فروری میں منعقد ہوگا۔ جس میں پہلا سیشن عطا شاد کی برسی کے حوالے سے ہوگا، جس میں بیرم غوری عطا شاد پر ایک مضمون پیش کرے گا جبکہ دوسرا سیشن ایک لیکچر پر مشتمل ہوگا۔ جو کسی بیرونی مقرر کا ہوگا۔ اس سیشن میں عطا شاد پر بیرم غوری ایک نظم بھی پیش کرے گا ۔ مارچ کا پوزہ زانت کا ایک سیشن بھی بیرونی پروفیسر کے لیکچر پر مشتمل ہوگا۔
ایجنڈے کے دوسرے نکتے پر بھی بحث کی گئی اور اکثریت رائے سے اے ڈی بلوچ، زیبا بلوچ اور اشرف سلہری کو ایگزیکٹو باڈی کوئٹہ میں بحیثیت رکن شامل کیا گیا۔ یہ تینوں ارکان سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے تھیٹر اور پرفارمنس سیکشن کے عہدیدار ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ارکان برسوں سے سنگت تھیٹر کے نام سے ڈرامے پیش کرتے چلے آرہے ہیں اور اب یہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز میں اپنے ادارے سمیت شامل ہوگئے ہیں۔اور اس کے ایک حصے کے طور پر کام کریں گے ، جو ڈرامہ، تھیٹر اور پرفارمنس سے متعلق ہوگا۔
ایجنڈے کے تیسرے نکتے کو بھی اکثریتِ رائے سے منظورکیا گیا اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے منشور کے دفعہ نمبر5 کے تحت آرٹیکل نمبر6 کا اضافہ کیا گیا جو یہ ہے کہ کسی دوسری سیاسی اور ادبی تنظیم کا عہدیدار سنگت اکیڈمی کے کسی ادارے کا عہدیدار نہیں ہوسکتا البتہ رکن ہوسکتا ہے۔اس کی منظوری بالائی اداروں سے لی جائے گی۔
یہ اجلاس شام6 بجے تک جاری رہا۔

******
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ پوہ زانت نشست21 فروری 4 بجے سینا اکیڈمی میں بیرم غوری کی زیر صدارت منعقد ہوئی، جس میں جاوید اختر، عصمت خروٹی، بیرم غوری، جہانگیر جبران، اشرف سلہری، نور بانو، نور ین لہڑی، عابدہ رحمن، ڈاکٹر عنبرین مینگل، داد شاہ، ساجد بزدار، ڈاکٹر شاہ محمد مری،ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو، کہرا کھوسہ،جئیند خان جمالدینی، عابد میر، سرور آغا، نثار ساجد ، امیر بخش ، ضیا شفیع، ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں اور اے ڈی بلوچ نے شرکت کی ۔ نظامت کے فرائض عصمت خروٹی نے سرانجام دیے۔
سب سے پہلے پروفیسر کہرا کھوسہ نے اپنا لیکچر
"Uses of Economics and its Complications in our Daily Lives”
کے عنوان سے پیش کیا۔ اس لیکچر میں اس نے علم المعیشت کی تاریخ، اہمیت اور افادیت کے ساتھ ساتھ پاکستان، بلوچستان اور عالمی معیشت کو مختصر انداز میں بیان کیا۔ اس لیکچر میں مختلف نظریات اور نظامات پر بھی بحث کی گئی اور ہماری زندگی میں معیشت کے کردار اور اثرات کو بھی زیرِ بحث لایا گیا۔
یہ پوہ زانت نشست ایک حوالے سے عطا شاد کی برسی پر بھی تھی لہٰذا عطا شاد کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے بیرم غوری نے ایک خوب صورت نظم ’’ عطا شاد کی نذر‘‘ پیش کی، جسے سامعین نے بے حد داد دی ۔ نظم میں خوب صورت الفاظ و تراکیب کی دروبست اور تشبیہات و استعارات کا استعمال دلچسپ تھے ۔
21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن بھی ہے لہٰذا پوہ زانت نشست میں مادری زبانوں کی اہمیت کے حوالے سے ایک مضمون بھی رکھا گیا تھا۔ عابد میر نے اس سلسلے میں اپنا مضمون بہ عنوان ’’ زبان اور مادری زبان : ہر ایک کا اپنا ستارہ ‘‘ پڑھا۔جس میں مادری زبانوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی اور کسی بھی ملک میں ایک زبان کی حاکمیت کو رد کیا گیا۔ کیوں کہ کسی بھی ملک میں جب ایک زبان کی حاکمیت قائم ہوجاتی ہے تو دوسری زبانیں اپنا ارتقا ء نہیں کر پاتی ہیں اور دوسری طرف اس ملک کے افراد عالمی علمی، سائنسی، ادبی اور ثقافتی ورثے سے بھی منقطع ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر عنبرین مینگل نے اپنی ایک کہانی’’میر حمل‘‘ کے عنوان سے پڑھ کر سنائی، جو بنیادی طو رپر بلوچستان پر پرتگیزیوں کے حملے کے خلاف لڑنے والے بلوچ مزاحمتی کردار میر حمل کے تاریخی کردار پر مشتمل تھی۔ یہ کہانی بچوں کے لیے تحریر کی گئی تھی اور بلوچستان کی تاریخ کے اہم باب پر روشنی ڈالتی تھی۔
اس کے بعد بیرم غوری نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ آج کی محفل کئی لحاظ سے رنگا رنگ اور متنوع ہے ۔ اس میں کہرا کھوسہ کا لیکچر ہماری روز مرہ زندگی میں معیشت کے کردار، اہمیت اور اثرات کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ لیکچربہت اہم موضوع کا احاطہ کرتا ہے اور بے حد معلوماتی ہے۔ عابد میر کا مضمون ’’ زبان اور مادری زبان: ہر ایک کا اپنا ستارہ‘‘ مادری زبانوں کی اہمیت کے حوالے سے بہت اہم اور معلوماتی ہے۔
ڈاکٹر عنبرین مینگل کی کہانی’’ میر حمل‘‘ بچوں کے ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے ۔ یہ کہانی ہو اور خلا میں نہیں بنی گئی بلکہ اس کی جڑیں بلوچستان کی سرزمین میں پیوست ہیں۔ کہانی بہت خوبصورت تھی ۔
اس کے بعد نشست برخاست ہوئی حاضرین نے چائے پی اور 7بجے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوگئے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے