(شاعر: جناب بدر سیماب)
ہر سچا شعر نہ صرف شاعر کا آئینہ ہوتا ہے بلکہ اس کے آئندہ پر پوری قوت سے اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔
دنیا کے لا متناہی خول میں نحیف اور مقید انسان اپنی شخصی آزادی آسودگی اور مسرتوں کی خاطر جُہدِ مسلسل کرتا ہے۔ کبھی دوستی و چاہ کی قربت حاصل کرتا ہے تو کبھی ادب و فن تخلیق کرتا ہے۔
بدر سیماب کی زندگی بھی جُہدِ مسلسل کا آئینہ دار ہے۔2 فروری1978 چیچہ وطنی، ضلع ساہیوال پنجاب میں جنم لینے والا خاموش طبع، تخلیق کار شاعر، دنیائے ادب میں کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ ابتدا صوفیا شاعری خاص کر پنجابی قومی شاعری و ادب نے بدر سیماب کو اپنی آنچل میں ڈھانپنے کی سعی کی اپنی پہلی کتاب ’’ تمہیں سوچا تمہیں چاہا‘‘ اردو میں تخلیق و مرتب کرنا پڑا۔
بدر سیماب خاموش طبع ا ور اپنی دنیا میں مگن رہنے والے انسان ہیں۔
درمیانے قد کا، صاف رنگت والا جدید دور کا یہ روشن فکر اپنے اندر خیالات کا ھمالیہ لیے شعر و شاعری سے نبرد آزما ہے۔ اسے اپنے کلچر سے پیار ہے، اپنی دھرتی، اپنے لوگوں اور اپنے اسلوب و خیالات سے محبت ہے۔
بدر سیماب نے اپنی تعلیم کے سفر کا آغاز پنجاب سے ہی کیا۔ انہوں نے پنجاب کالج آف کامرس سے گریجویشن کیا اور پھر بہ سلسلہ معاش کویت کا رُخ کیا۔
بدر سیماب تو ویسے ہی من میں پت جڑسجائے بیٹھا تھا اور اس پر متضاد صحرائے کویت کی تپتی دھوپ، خاموش فضائیں ، بدر سے گلے ملنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو ہیں۔ وہ صحرائی دنیا میں آکر بہت خوش ہوئے کہ چلو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔
صحرائی دیوانوں کی یہ ربطِ مجلس دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔شاید کسی کی نظرِ لگ گئی۔ جہاں ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ جہاں صرف بدر تھا یا سراب ، سیماب تھا یارمل، کسی ان دیکھی ہلچل نے ان کے تخلیے میں بھونچال برپا کردی۔ گھٹاؤں نے تیور بدلے، برکھارت ناچتی گاتی، چھیڑ چھاڑ کرتی، جھلمل کرتی، شور مچاتی، خاموشی کا سینہ چیر کر نازک اندام بدر سیماب پر حملہ آور ہوئی۔ یعنی گھر والوں نے بدر سیماب کی شادی کرادی۔ خزاں رسیدہ وجود میں بارش کی بوندیں ٹپکیں، کونپلیں پھوٹیں۔ گویا زندگی مہک اٹھی۔ اتنا عظیم تصادم ہونے کے بعد اب مجھے یہ علم نہیں کہ شادی کے بعد بدر مسکراتے ہیں بھی کہ نہیں؟؟!!!
یہ بھی بتاتا چلوں کہ بدر سیماب کی فیملی میں نہ کوئی شاعر تھا اور نہ ہی کوئی ادیب اور نہ ہی ادب سے شغف رکھنے والا کوئی فرد۔ بدر فقط فیض احمد فیض ، منیر نیازی اور سلیم کوثر جیسے نابغہ روزگار عظیم شعرأ کی تصانیف کو پڑھتے پڑھتے خود بھی شعر موزوں کرنے لگے ۔ اس نے اپنی پہلی غزل اس وقت مشاعرے کی نظر کی جب و ہ میٹرک میں پڑھ رہے تھے۔ یہ سن1994-1995 کا واقعہ ہے ۔ پھر اس کے بعد ایک طویل عرصہ ان کا بغیر مشاعرے کے گُزارا یعنی ان کا اگلا مشاعرہ 2003 میں اس وقت ہوا جب وہ کویت میں وارد ہوئے۔ بعدازاں چل سو چل والا معاملہ ہوا۔ دس سال بعد یعنی2013 میں ہندوستان کی ادبی تنظیم کے روحِ رواں ڈاکٹر سیوک کی خاص دعوت پر انڈیا چلے گئے اور وہاں کئی مشاعروں میں شرکت کی۔ 2014 میں متحدہ عرب امارات میں بھی مدعو ہوئے اور وہا ں بھی اپنی خوبصورت اور دل آویز شاعری سے شرکاء سے دادِ تحسین حاصل کی۔ مقامی اور غیر ملکی مشاعروں میں شرکت کی وجہ سے بدر سیماب نے کئی ادبا سے شرفِ ملاقات بھی حاصل کی۔
کہتے ہیں کہ ہر شخص اپنی سوسائٹی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ضرور ہوتا ہے اور بعضے معاشرتی و علاقائی ماحول میں اس طرح اور اس قدر رنگ جاتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت و نفسیات اس کے وجود سے چیختی ہوئی نکل کر خلاؤں میں گم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ نئے معاشرتی رویے ، اقدار، جغرافیائی خدوخال اور نفسیات جگہ بنالیتی ہیں۔
یہی حال سرزمینِ عرب میں مقیم دیارِ غیر شاعروں کی ہے۔جن کے اذہان پر نئی معاشرتی رویوں نے بسیرا کیا ہوا ہے اور پہرہ ڈالا ہوا ہے۔
صحرائے عرب خاص کر کویت میں مقیم تقریباً ہر شاعر کی شاعری میں صحرا کا ذکر اور ملک سے دُوری کا تذکرہ اور اشارات ضرور ملتا ہے ۔ جو ایک فطری بات ہے اور نفسیاتی تغیر کی زندہ مثال ہے۔
بدر سیماب بھی صحرائی اثرات سے بری الذمہ نہیں ہوئے اور فرمانے لگے۔
اپنے صحرا سا نہیں کوئی بھی اپنا ہمدم
کوئی پاگل ہو جو بستی میں دوبارہ جائے
کسے دیکھوں میں مسلسل کہ نہیں تاب مجھے
آنکھ جھپکوں تو یہ ڈرہے کہ نظارا جائے

کبھی ماں کی جنہیں لوگو! دعائیں بھول جاتی ہیں
وہ صحرا میں بھٹکتے ہیں گھٹائیں بھول جاتی ہیں

پاؤں میں کتنے چھالے پُھوٹے
صحرا میں جب ساتھی چھوٹے

بدر سیماب کی شاعری میں ریگزار اور دشت و صحرا کے الفاظ کا جمگھٹا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برعکس پھول، کلیاں، نشاطِ محفل، گیسوئے یار، ہجر و فراق ، چاند ستاروں کی چمک دھمک نمایاں نظر آتی ہے۔
بدر سیماب کی شاعری میں شادابی، شائستگی ، حسین احساسات ، جمالیاتی حُسن ، نفاست، سلیقہ شعاری، زندگی کی ہلچل و رونقیں، جستجو، فہم و فراست، نویدِ سحر اور تازہ ہوا کے جھونکے جابہ جا چمکتے دھمکتے دکھائی دیتی ہیں۔
میرے نزدیک بدر سیماب ایک رومان پرور شاعرہے ، جس کی شاعری میں ہجر و فراق ، نئی رُتوں کی پکار اور زندگی سے پیار کی تصاویر جابہ جا آویزاں نظر آتی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے باوجود ان کی شاعری میں وہ گھن گرج نہیں ہے جو بائیں بازو کی اوپری و قدرے ذیلی نشستوں پر براجماں شعراء حضرات کی ہوتی ہے۔ بدر سیماب کی شاعری دھیمی مگر محسوسات کی شاعری ہے جس میں نہ اکتاہٹ ہے اور نہ ہی بوجھل پن۔
غریب شہر ہیں لیکن بڑا معیار رکھتے ہیں
ہمارا سر نہیں باقی مگر دستار رکھتے ہیں
بہت حیراں ہیں گھر میں ہوائیں کیوں نہیں آتیں
نہ کوئی در ہی باقی ہے نہ ہم دیوار رکھتے ہیں
بدر سیماب نے اپنی فطری روش کے پر تو معاشرے کی بے حسی، نا ہمواریوں اور تلخ حقائق کو جگہ جگہ اپنی کتاب ’’ تمہیں سوچا تمہیں چاہا‘‘ میں نمایاں کیا:
سڑک کنارے
خون میں لت پت
ٹکڑے ٹکڑے
جسم پڑا ہے
یاس میں ڈوبی
آخری ہچکی
بجھتے بجھتے حیراں آنکھیں
گُھور رہی ہیں
ہر اک چہرہ
پاس کھڑا میں حیرت میں گُم
دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
کون بتلائے؟ لاش ہے کس کی
کون مرا ہے ؟؟؟

ایک اور جگہ بدر یوں گویا ہیں:
دولت کی اس منڈی میں
غرض کی اندھی نگری میں
ہر چیز ہی بکتی آئی ہے
ہر شخص کا سودا ہوتا ہے
ہر جذبہ رُسوا ہوتا ہے
سکوں کی جھنکار میں دب کر
عزت، شہرت، غیرت سب کچھ
اپنی شکلیں کھو دیتے ہیں
اپنے آپ کو رو دیتے ہیں
مجھ سے میرے بچے لے لو
مجھ کو لیکن روٹی دے دو
غرضوں کے بازار میں لوگو
بچے بیچنے آیا ہوں میں
ان تمام حوادث و تلخیوں کے باوجود بدر سیماب کی شاعری میں سُہانی رُتوں کا سندیسہ، خزاں کی رُت میں بہار، لہجے میں پیار، فضا میں گیت، قوس و قزح کے رنگ، شوخ ادائیں، گُل و بھنورا ، برکھا ساون، جھرنے ندیا کا تذکرہ والہانہ طور پر جھلکتا نظر آتا ہے۔
بحیثیتِ موسیقار(راقم الحروف) میں یہ کہتا ہوں کہ بدر سیماب کی شاعری میں نغمگی کا عنصر اپنی جولانی اور پوری توانائی کے ساتھ جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے ۔ جیسے:۔
کیا کہتا ہے بھنورا گُل سے؟
گُل کے ہیں کیا ناز
گیتوں سے یہ کون لبھائے؟
کس کی ہے آواز

میٹھی باتیں کرتی ہے وہ
کتنی اچھی لگتی ہے وہ
میرے دل کی اس دھرتی پر
ندیا بن کر بہتی ہے وہ

کبھی خوشبو کبھی نغمہ ہمیں سونے نہیں دیتا
تصویر دلنشیں ایسا ہمیں سونے نہیں دیتا
کبھی خود کو مناتے ہیں کبھی خود سے الجھتے ہیں
یہ کیسا وقت آٹھہرا ہمیں سونے نہیں دیتا
تمہیں کیسے بتائیں ہم کہ ہیں یہ وحشتیں کیوں کر
بدر سے دُور اک تارا ہمیں سونے نہیں دیتا
بدر سیماب کی شاعری میں والہانہ پن، جستجو تو ہے مگر جار حانہ پن جو شیلا پن سے انہوں نے حتیٰ المقدور اجتناب کیا۔بعض جگہ تو بدر کسی فریادی کی صورت میں دونوں بازو باندھے، سر جھکائے با ادب با ملاحظہ کسی بادشا ہ کے دربار میں کھڑا نظر آتا ہے ۔ یہ یاسیت اور محرومی کی کیفیت شاید اس کے لاشعور میں دبی وہ چنگاری ہے جو ھنوز سُلگ سُلگ کراسکے شعور کو ہوا دے رہی ہے ۔ اسی خوف کی کیفیت کو بدر نے شاندار الفاظ کا جامہ نہایت سلجھے ہوئے انداز میں دیا ہے

میں مِٹی مِٹی سی کتاب ہوں کسی دیدہ ور کی تلاش ہے
میرا ساتھ دے گا جو عمر بھر اسی ہم سفر کی تلاش ہے
میری عمر ہوئی رائیگاں مجھے ہجرتوں نے تھکا دیا
کوئی شام گھر میں گزار لوں مجھے اپنے گھر کی تلاش ہے

کیسے بے چہرا ہو ا جاتا ہے چہرا میرا
میرے چہرے پہ میرا چہرہ اتارا جائے
کیسے دیکھوں میں مسلسل کہ نہیں تاب مجھے
آنکھ جھپکوں تو یہ ڈرھے کہ نظارا جائے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے