بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مرمٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے
نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشکبو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوش مِہ و شاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
ترے ہمارے
سوال سارے جواب سارے
بہار آئی تو کُھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے