حیا کی گرہ لگے بُقچے کے اندر
تم کب تک گُڈّا گُڈّی کھیلتی رہوگی
خواہشوں کی نئی نویلی دُلہن کو
رنگین دھاگوں میں لپیٹ کر
ماتھے پر ستاروں کا ٹیکہ لگاتی رہوگی
آؤ !
حقائق کے شفاف آئینے میں
جھانک کر دیکھو
کہ تمہاری روشن کناروں والی آنکھوں میں
کتنے سمندر موجزن ہیں
اور امواج کی تہوں میں
کتنے خواب گوہربن کر چمکتے ہیں
تمہیں معلوم ہے ؟
جب تمہارے خواب
میرے خوابوں میں آنکھیں موندھ کر
مجھے مجھ سے چُرا لیں گے
تب ایک محرم سایہ
دبے پاؤں تمہارے دل کے دروازے سے نکل کر
حیا کی گرہ لگے بُقچے کو
میری جھولی میں پھینک دے گا
اور خود ساحل کی ریت میں ایسے جذب ہوجائے گا
جیسے کوئی سایہ
سایوں میں ڈوب جاتا ہے
یا کوئی تارا
تاروں میں گُم ہوجاتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے