بڑے بوڑھوں کی زبانی سنا تھا کہ خشک سالی کا ہمارے دور میں دورانیہ تین سے پانچ سال تک رہا ہے لیکن اس دوران زیر زمین پانی کی سطح نیچے نہیں گئی بلکہ کاریزات بہتے رہے لیکن 1994 کے بعد خشک سالی نے بلوچستان میں ایسے ڈیرے جمائے کہ خشک سالی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کبھی کبھار پورے سیزن میں ایک آدھ بارش ہوجاتی ہے ۔ طویل خشک سالی کے باعث ہمارے کاریزات آج سے سترہ اٹھارہ سال پہلے ہی خشک ہوگئے تھے۔ زراعت پیشہ لوگوں نے متبادل کے طور پر ٹیوب ویلوں پر انحصار بڑھانا شروع کردیا جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بڑی تیزی سے نیچے گرنا شروع ہوگئی۔ لیکن حکومت کے بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے آج بلوچستان ایک خطرناک صورتحال سے دو چار ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہم پر بھی تھر اور چُولستان جیسے حالات آئیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں۔2014 میں حکومت بلوچستان کے جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں6بڑے ڈیمز مختلف اضلاع میں بنانے کا منصوبہ وفاق کے تعاون سے اعلان ہوا جس میں ایک ڈیم لورالائی میں بنتا تھا ۔ سُن کر خوشی ہوئی لیکن وہ آج تک التوا میں ہے ۔ حکومت کو ڈیمز کے منصوبوں میں عوامی اشتراک کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔اور ایسے منصوبوں میں عوامی نمائندوں اور مقتدر قوتوں کی من مانیوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہ ڈیمز ایسے مقامات پر بنانے چاہئیں جس سے سارا علاقہ آبپاشی و آب نوشی کے حوالے سے مستفید ہو۔ ماضی میں کچھ ڈیلے ایکشن ڈیمز تعمیر کیے گئے لیکن محکمہ اریگیشن کی غفلت و عدم توجہی اور کرپشن کی وجہ سے اُن ڈیموں کی تعمیر کی افادیت اتنی نہیں رہی۔ ہمارے آفیسران ، ٹھیکیداران کسی کام میں چاہیے وہ مسجد ہی کیوں نہ ہو پرسنٹیج کو اپنا حق قرار دیتے ہیں اور دس کروڑ روپے سے تعمیر ہونے والے ڈیم پر بہ مشکل 5 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ محکمہ کے آفیسران اپنے اور ٹھیکیدار کے کرپشن کو چُھپانے کے لیے سپیل وے کی اونچائی کو50 فٹ سے کم کرکے صرف10 فٹ کردیتے ہیں اور ڈیم ٹوٹنے کا بہانہ بنا کر بند کے نیچے دیا گیا پائپ بھی کھول دیتے ہیں ایک ہفتے میں ڈیم کا سارا پانی بہہ جاتا ہے۔
آئیے اپنے پڑوسی ملک چائنا کا اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں ۔ چین میں اس وقت کم و بیش ساڑھے سترہ ہزار ڈیم ہیں جن میں دو ہزار کے قریب ایسے بڑے ڈیم ہیں جو بجلی پیدا کرنے کے علاوہ اُن سے نہریں نکال کر آبپاشی بھی کی جاتی ہے اور ایک ڈیم جو دنیا کا بڑا ڈیم ہے اس کی لبائی600 کلومیٹر ہے اور اس ڈیم کو بطور آبی شاہراہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بلوچستان تین لاکھ پینتالیس ہزار ایک سو چورانوے مربع کلومیٹر پر مشتمل ایک وسیع و عرض صوبہ ہے اور اللہ نے وسائل وجغرافیائی اعتبار سے جتنی اہمیت ہمیں دی ہے۔ اگر ہم اس پر باریک بینی سے غور کریں تو ہم کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ اللہ نے ہمیں کتنے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ ہم دنیا کے امیر ترین لوگ ہونے کے باوجود کتنے مجبور و لاچار ہیں ۔ دنیا میں وہی قوتیں ترقی کرتی ہیں جو آپس میں متحد ہوں اور محب وطن ہوں اور طبقاتی نظام کے خلاف ہوں ۔ہم سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں اور ہم اپنے میں سے عوامی نمائندوں کو نہیں بلکہ خاندانی نمائندوں کو کامیاب کرکے پھر پانچ سال تک سر پیٹتے رہتے ہیں ۔آئیے ہم عہد کریں کہ ہم آئندہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ کو پروان چڑھائیں گے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے