جس زبان کے زریں اقوال ہوں ۔ محاورے نیک فال ہوں اس کے کردار باکمال ہوں ان کے زنبیلوں میں احوال ہی احوال ہوں ۔ عشق محبت بارے ایک دوسرے سے سوال ہوں ۔ وہیں تو کہانیاں جنم لیتی ہیں ۔ذوق سخن پیدا ہو تا ہے ۔ راہ حق کی بات ہوتی ہے ۔ ایسے میں تعلق ادب بااعتبار ہوتا ہے سچ سے لگاؤ جھوٹ سے نفرت و انکار ہو تا ہے ۔
براہوئی ادب پڑھنے اور اس سے تعلق جوڑنے والے یقیناًاس بات کے گواہ ہوں گے کہ زمانہ قدیم سے ماں کی لوری سے پروان چڑھنے والی محبت کی داستانوں نے اس معاشرے میں بھی احساسات و جذبات کی بیمثال ترجمانی کی ہے ۔اس کے باوجود صدیوں سے بلوچ خانہ بدوش قبائل کسی مادر علمی کے بغیر ادب وآداب کی روایات کی ایسی آبیاری کر تے آرہے ہیں جس پر جس قدر فخر کیا جائے کم ہے۔ براہوئی قبائلی معاشرے سے جدید ترقی یافتہ معاشرے تک کا سفر اس کی خوبصورت، پائیدار اور بامعنی کہانیوں کے طفیل جاری ہے جس کی موجودہ شکل افسانہ و ناول کے طو ر پر ہم سے متعارف ہو تی ہے ۔ براہوئی جدید اصناف ادب میں افسانہ کا آغاز 1955ء سے ہوا۔
میر ہیبت خان کا افسانہ’’ مسافر ‘‘پہلی مرتبہ ماہنامہ نوائے بولان اور نوائے وطن کراچی میں چھپا ۔ اس دور کے اہم افسانہ نگاروں میں نادر قمبراڑی۔ عبدالرحمن کرد۔ گل بنگل زئی۔ امیر الملک مینگل۔ غلام نبی راہی۔ غلام حیدر حسرت۔ ظفر مرزا۔ اختر ندیم بلوچ ۔ عبدالقادر اثیر شاہواڑی۔ محترمہ حمیدہ نسرین اور شاہینہ انجم کے نام سرفہرست ہیں ۔ یہ روایتی افسانے معاشرتی ناہمواریوں کے موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ اس دور کے افسانہ نگار موپا ساں والٹیر۔ شیکسپیئر ۔ کرشن چندر۔ اور منٹو سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ۔ انہی ادباء کی کاوشوں سے براہوئی جدید اصناف ادب میں ہو نے والا کام نہ صرف زبان کے بولنے اور سمجھنے والوں میں متعارف ہو تا ہے بلکہ براہوئی زبان کا تعارف دیگر زبانوں کے بولنے والوں سے بھی ہو تا ہے۔
1980ء کی دہائی میں روشن فکر افسانہ نگاروں میں اضافہ ہو تا ہے جس کے افسانوں میں بین الاقوامی موضوعات شامل ہو تے ہیں ۔ان افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر تاج رئیساڑی۔ وحید زہیر۔ عارف ضیاء۔ افضل مراد۔ خدائے رحیم خادم۔ ظفر معراج۔ محراب گچکی۔ عابد براہوئی۔ ڈاکٹر نصیر عاقل ۔ عزیز مینگل ۔ خداداد گل ۔ آمنہ یوسف موج کے نام شامل ہیں ۔ معروف ادیب غفور ساسولی کے مطابق گل بنگل زئی۔ عبدالرحمن کرد۔ نادر قمبرڑی سے لے کر امیر الملک مینگل اور تاج رئیسانی تک براہوئی افسانہ مختلف تجربوں کے بعد ایک نئی روایت کے ساتھ 1980ء کے عشرے سے شروع ہو تاہے۔ اسے تازہ سوچ و فکر کے ساتھ عارف ضیاء۔ وحید زہیر ۔ڈاکٹر نصیر عاقل نئے تجربوں سے آشنا کر تے ہیں ۔
1982ء میں ڈاکٹر تاج رئیساڑی کا پہلا براہوئی افسانوی مجموعہ "انجیر نا پھل” چھپ کر مارکیٹ میں آتا ہے جس کے سات سال بعد دریہو کے نام سے گل بنگل زئی کا پہلا ناول منظر عام پر آتاہے ۔ اس دور کے افسانہ و ناول نگار چیخوف ۔ میکسم گورکی۔ راجند ر سنکھ بیدی۔ قرۃ العین حیدر و دیگر ممتاز افسانہ و ناول نگاروں سے متاثر نظر آتے ہیں ۔علاوہ ازیں بین الاقوامی افسانہ و ناول نگاروں کی تخلیقات کے تراجم ہو ئے ۔ جس میں اولڈ مین ینڈدہ سی ۔پرل۔ ماں۔ حاجی مراد ۔ کاندیت۔ عالمی شاہکار افسانے ، شیکسپیئر کے افسانے نور محمد ترہ کئی کے ناول منٹو اور کرشن چندر کے افسانے و دیگر شامل ہیں ۔ براہوئی تخلیقات اور تراجم کے چھپوانے میں براہوئی اکیڈمی ۔ براہوبی ادبی سوسائٹی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز اور بلوچی اکیڈمی کے زیراہتمام بھی براہوئی زبان میں ہو نے والے تراجم کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔جبکہ بعض افسانہ و ناول نگار ذاتی حیثیت میں بعض کتابیں شائع کر چکے ہیں ۔ براہوئی افسانہ اور ناول تیکنیک اور اسلوب کے لحاظ سے اب روایتی انداز سے نکل چکے ہیں ۔انکے موضوعات میں بھی جدت آگئی ہے ۔
ڈاکٹر سرور پرکاڑی کا "ایٹم نا زراب "نصیر عاقل کا "آزادی ناکسر”اور محترمہ نیلم مومل کا "خون بہا”یہ وہ ناول ہیں جن کا تعلق براہ راست بلو چستان کے سیاسی سماجی حالات سے ہے ۔ شہزاد غنی۔ نادر شاہواڑی ۔شاہین بارانزئی۔ طاہر خان مینگل ۔ اللہ بخش شاکر کے چھپنے والے ناول اور پروفیسر طاہرہ احساس 249 عامر رفیاض ۔ حسن ناصر ۔غریب شاہ انجم۔ نوراحمد پرکاڑی ۔ ڈاکٹر عنبرین مینگل۔ اکر م ساجد۔ عبدالرازق ابابکی ودیگر نئے افسانہ نگاروں کی تخلیقات براہوئی ادب میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔ اس وقت معاشرتی کرب والم کی نشاندی سیاسی نشیب و فراز اور اخلاقی زوال پذیری افسانوں اور ناولوں کے موضوعات بن رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں براہوئی زبان میں سندھی ۔ اردو۔ انگریزی اور پشتو زبانوں میں لکھے گئے افسانوں کے تراجم تو ہورہی ہے ساتھ ہی ساتھ براہوئی زبان کے افسانوں کے سندھی ۔ بلوچی ۔ اردو اور انگریزی زبانوں میں تراجم کا کام بھی جاری ہے ۔پروفیسر عارف ضیاء اور عامر فیاض کے براہوئی افسانہ و ناول کے جائزوں پر مبنی کتب منظر عام پر آچکے ہیں ۔جبکہ محترمہ پروفیسر عابدہ بلوچ اور پروفیسر خداداد گل کے ناول اور افسانوں پر ایم فل تھیسز بھی چھپ کر مارکیٹ میں آچکے ہیں ۔خاص طور پر براہوئی افسانے کی ترقی و ترویج میں 1974ء میں بارڈ پبلسٹی کے زیر اہتمام چھپنے والے اولس اور احوال خضدار نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔
براہوئی روزنامہ” تلارکوئٹہ” ہفت روزہ” تلار” نوشکی۔ ماہنامہ "مہر”۔” استار” اور پندرہ روزہ” پڑو” بھی نئے افسانہ نگاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ اکیڈمک لحاظ سے پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح براہوئی میں افسانے اور ناول پر حوصلہ افزاء کام ہورہاہے۔ البتہ کتابوں کی ترسیل اور علمی ماحول کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے نئی نسل میں علم و ادب سے لگاؤ اور دوستی کا چسکا پھیکا پڑرہاہے ۔ اگر شعور و آگاہی سے نئی نسل کو جوڑ نا ہے تو اس کے لیے علمی و ادبی ماحول کو پروان چڑھانا ہو گا۔لوک ورثہ کی اس کی کاوش کے یقیناًمثبت نتائج نکلیں گے اور علم و ادب کے یہ پروردہ زبانوں کی نعمت سے مالا مال اس خطے کو انسانی اقدار کے استحکام کیلئے نئی سمت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا باعث بنیں گے وگر نہ ہم اس طرح بریکنگ نیوز کی یلغار میں پورس کے ہاتھیوں میں کچلے جانے کی تاریخ کا نیا باب رقم کرنے کا باعث بنیں گے ۔جن معاشروں میں تخلیق۔ تحقیق و تعمیر کا عمل ماند پڑ جائے وہاں اسمبلیوں میں ایان علی کا چرچا ہو گا ۔ تعلیمی اداروں میں طلباء و اساتذہ علمی سرگرمیوں سے نکل کر اسلحہ چلانے کی تربیت میں معروف ہوں گے ۔ فیس بک پر فتنہ بازوں اور نئے نئے فتنوں پر لائک اور ڈس لائک جیسی گمرائی کا معاملہ چل پڑے گا ۔ تقاریر شیطانی سرچ انجن کا کام کریں گی۔ لہذا زبانوں کو زندہ رکھنے کیلئے ان کی ثقافت 249 کہانیوں کو زندہ رکھنا ہو گا ۔ جس کا مقصد زندگی کے مثبت و منفی کرداروں کے بیچ عشق و محبت سے آشنائی کے روحانی ذائقے کو عام کرنا ہے تاریخ میں جسے لازوال قوموں کی میراث سمجھا جاتاہے ۔براہوئی ادب عشق و محبت ۔ سائنس و حکمت۔ اخلاق و جرات کے کردارتخلیق کررہاہے تاکہ اس زبان کے پڑھنے والے اس کے روحانی ذائقے سے محظوظ ہوں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے