کوئی نو سال ہوتے ہیں
گوادر کے سحر ساحل پہ میں نے
سیپیاں چنتے ہوئے اک چیز دیکھی تھی
کسی آدینک کی مانند چمکیلی
کرسٹل کی طرح شفاف سی نازک
وہاں ساحل پہ میں نے کھیلتے بچوں سے یہ پوچھا

’’ منی دستاں اے چی اے ؟‘‘
’’ یہ کیا ہے ہاتھ میں میرے ؟‘‘
وہ بولے،
’’ اَرس ہے اَدّا
ایشا ما آبلُو گشان اِدا‘‘
یعنی۔ ’’ یہ آنسو ہے
اسے ہم آبلُو کہتے ہیں باجی‘‘

میر ی حیرت کو جانچا اور بولے
’’ دریا ہم کدی گریواں
ترا باور نہ بی زاناں
بچار دریا وتی ارساں
تیا با کئیت شَنزی رَوت‘‘

’’ سمندر رویا کرتا ہے
یقیں نہ آئے تو دیکھو
سمندر اپنے آنسو ساحلوں پہ چھوڑ جاتا ہے ‘‘

میں ساحل پر وہی آنسو لیے
بیٹھی رہی گھنٹوں
یقیں کا اور گماں کا پھر کوئی
امکاں نہ تھا باقی
سمندر اپنے بچوں کی
تباہ حالی پہ جب روئے
تو پھر طوفان آتے ہیں

کبھی آنسو بھی بکتے ہیں؟
سمندر بیچنے والے
یہ کوتاہ فہم تاجر ، حرص کے مارے
یہ بس طاقت کے متوالے
ہمیں اتنا بتادیں
آبلُو کے دام کتنے ہیں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے