دل ہی کعبہ ہے حجر پیش نظر ہو کہ نہ ہو
دِل کی تسکین ثمر اور ثمر ہو کہ نہ ہو
جنگ توکرتی رہی ظلمتِ حالات سے میں
چاہے اِس رات کی بھی کوئی سحر ہو کہ نہ ہو
زندگی ! کیوں نہ ترے قرض چکادیں سارے
وقت اِس طرح کا پھر بارِدگر ہو کہ نہ ہو
ٹل نہیں سکتا ازل سے جو اجل کا ہے مقام
خود ہی پہنچیں گے وہاں عزم سفر ہو کہ نہ ہو
اپنے احساس کو لفظوں کا بدن دے لوں میں
غم نہیں پاس کوئی اور ہنر ہو کہ نہ ہو
بوتی جاؤں گی ثمردار شجر رستے میں
چاہے اُس راہ سے پھر میرا گزر ہو کہ نہ ہو