کہاں اے دستِ آسماں ،ترا خمار تھا ہمیں
بس ایک اپنی ذات پر ہی اعتبار تھا ہمیں
بقا سے کب عز یز تریہ لطفِ یار تھا ہمیں
اجی! جہانِ خلا میں کہاں قر ار تھا ہمیں
ہمارے خون سے ہی کیوں دیارِ مقتلاں سجے
کہ زندگی سے ہی گلہ ، نہ شوقِ دار تھا ہمیں
یہ رقص ہائے زند گی جو ایک دم محال ہے
کبھی یہاں دھمال کا بھی اختیار تھا ہمیں
سر شتِ کافری کہاںِ ، یہ وقتِ اجتہاد ہے
نہیں کہ عہدِ رفتگاں تو نا گوار تھا ہمیں
نہیں کہ ساری داستاں بد ستِ غم لکھی گئی
کہیں کہیں کمال کا تو اختیا ر تھا ہمیں
انہی کے سرد ہاتھ کا یہ لمس ہی شفا بنا
ظہیر جن کے نام کا بہت بخار تھا ہمیں