پر سکون نیلی جھیل کے گرد اونچے اونچے ، سال میں بارہ مہینے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کا چوکھٹا لگا ہو اہے ۔ باغوں کے تاریک کٹاؤ دار جھالروں کی فراواں تہیں لہراتی ہوئی پانی کے کنارے تک پہنچ رہی ہیں ۔سفید سفید مکان جو شکر کے بنے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں ساحل سے پانی کا نظارہ کر رہے ہیں اور چاروں طرف جو سکون اور سکوت چھایا ہوا ہے وہ ایک بچے کی دھیرج کی نیند سے ملتا جلتا ہے۔
صبح کا وقت ہے ۔ پہاڑوں سے پھولوں کی خوشبو دھیرے دھیرے ، ملائم انداز سے اڑتی ہوئی آ رہی ہے۔ سورج ابھی ابھی طلوع ہوا ہے ا ور ابھی تک درختوں کے پتوں اور گھاس پر شبنم کے موتی اپنی جوت دکھا رہے ہیں ۔ سڑک ایک بھورے بھورے فیتے کی مانند ہے جسے بے آ واز پہاڑی گھاٹی کے اندر پھینک دیا گیا ہو ، سڑک پر پتھر لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکا لمس مخمل کی طرح ملائم ہوگا ۔
ایک ملبے کے ڈھیر کے پیچھے ایک سیاہ فام مزدور بیٹھا ہے ، اس کے چہرے سے اس کی جرات اور نرم دلی کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے سینے پر ایک تمغہ لگا ہو اہے ۔
اپنے تمیائے ہوئے ہاتھوں کو گھٹنوں پر ٹکا کر وہ ایک راہ گیر کو دیکھنے لگتا ہے جو ایک چسٹنٹ کے درخت کے نیچے کھڑا ہو اہے ۔
’’محترم‘‘ وہ کہتا ہے ’’یہ تمغہ مجھے سمپلون سرنگ میں کام کر نے کی وجہ سے ملا ہے ۔‘‘
اور وہ نیچی نگاہیں کر کے اپنے سینے پرلگے ہوئے چمکیلے دھات کے ٹکڑے کو دیکھ کر محبت سے مسکراتا ہے ۔
’’ہاں ، ہر کام اس وقت تک کٹھن ہوتا ہے جب تک کہ وہ تمہارے رگ و پے میں سرایت نہ کر جائے ، جب تک کہ تم اس سے پریم نہ کرنے لگو ، اور پھر وہ تمہارے اندر ایک جوش اور ابھار پیدا کر دیتا ہے اور بالکل سہل ہو جاتا ہے ۔ لیکن ظاہر ہے وہ بہت کٹھن کام تھا!‘‘
اس نے ہلکے سے اپنے سر کو جنبش دی ، سورج کی طرف دیکھ کر مسکرایا ، یکبارگی وہ گرما گیا، اس نے اپناہاتھ ہلایا اور اس کی سیاہ آ نکھیں چمکنے لگیں ۔
’’بعض دفعہ تو کچھ خوف سا معلوم ہوتا تھا۔ دھرتی بھی تو کچھ نہ کچھ محسوس کرتی ہی ہوگی ، کیا خیال ہے تمہارا ؟۔ جب ہم پہاڑ کے پہلو میں ایک لمبا چوڑا شگاف ڈال کر دھرتی کی گہرائیوں میں جا گھسے تووہاں ، اندر کی طرف ، دھرتی ہم سے خفگی کے ساتھ ملی ۔ وہ ہمارے اوپر اپنے گرم گرم سانس چھوڑنے لگی اور اس کی وجہ سے ہمارے دل بیٹھنے سے لگے ، ہمارے سر بھاری ہو گئے اور ہماری ہڈیاں دکھنے لگیں ۔ بہت لوگوں کو اس قسم کا احساس ہو چکا ہے !۔ پھر دھرتی نے ہمارے اوپر پتھر پھینکے اور ہمیں گرم پانی میں شرابور کر دیا ۔ بڑی خوفناک چیز تھی وہ بھی ! ۔بعض دفعہ جب اس پر روشنی پڑتی تھی تو پانی بالکل سرخ ہو جاتا تھا اور میرا باپ کہتا تھا کہ ہم نے دھرتی کو زخمی کر دیا ہے اور اب وہ ہم سب کو اپنے خون میں ڈبو دے گی ، جلا ڈالے گی !۔ یہ تو خیر ظاہر ہے فقط تخیل کی اڑان تھی لیکن جب زمین کی گہرائیوں کے اندر ، دم گھونٹ دینے والے اندھیرے میں ، جبکہ پانی غمگین انداز سے ٹپ ٹپ گررہا ہو او رلوہا پتھر سے رگڑ کھا رہا ہو، آ دمی ایسی باتیں سنتا ہے تواس وقت سب کچھ ممکن معلوم ہوتا ہے ۔ جناب، وہاں سب کچھ اس قدر عجیب و غریب تھا! ۔ہم انسان اس فلک بو س پہاڑ کے مقابلے میں ، جس کا ہم پیٹ چاک کر رہے تھے ، اس قدر چھوٹے چھوٹے بونے معلوم ہوتے تھے۔۔۔ اگر تم نے اس منہ پھاڑے ہوئے شگاف کو دیکھا ہوتا جو ہم چھوٹے چھوٹے انسانوں نے پہاڑ کے پہلو میں ڈال دیا تھا، اگر تم نے ہمیں پو پھٹنے کے وقت اس شگاف میں داخل ہو کر دھرتی کے پیٹ میں گھستے ہوئے دیکھا ہوتا جب کہ سورج غمگینی سے ہمیں دیکھتا رہ جاتا تھا، اگر تم نے مشینوں کو اور پہاڑ کے بیزار اور اداس چہرے کو دیکھا ہوتا ، زمین کی گہرائی میں بھاری گرج اور گھڑ گھڑ سنی ہوتی اور زمین کے پھٹنے کی گونج سنی ہوتی ، جو بالکل پاگل آدمی کی ہنسی کی طرح تھی، تب تم سمجھ سکتے تھے ۔‘‘
اس نے اپنے ہاتھوں پر ایک نظر ڈالی ، اپنے نیلے کام کے لباس پر لگے ہوئے دھات کے ٹیب کو ٹھیک کیا اور آ ہستہ سے ٹھنڈا سانس بھرا۔
’’انسان کام کرنا جانتا تھے‘‘ وہ فخر و غرور کے احساس کے ساتھ کہتا رہا۔ ’’اوہ ، محترم، یہ چھوٹا سا انسان جب کام کرنا چاہتا ہے تو اس کی طاقت کو کوئی چیز زیر نہیں کر سکتی !۔ اور میری بات مانو ، آ دمی بھلے ہی چھوٹا ہو لیکن وہ جس کام پر جٹ جاتا ہے اُسے آ خر کا رکر کے ہی چھوڑتا ہے ۔ شروع میں میرا باپ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا۔‘‘
’’ایک ملک سے دوسر ے ملک تک پہاڑ کو اندر ہی اندر کاٹ ڈالنا ‘‘ وہ کہا کرتا تھا،’’ خدا کی مرضی کے خلاف چلنا ہے کیونکہ اس نے دھرتی کو پہاڑوں کی دیواروں کے ذریعے الگ الگ کیا ہے ۔ تم دیکھ لینا کنواری مریم ہمیں چھوڑ دیں گی ! ‘‘ ۔وہ غلطی پر تھا ، کنواری مریم کبھی ان لوگوں کا ساتھ نہیں چھوڑ تیں جو اُن سے محبت کرتے ہیں ۔ بعد میں میرا باپ بھی لگ بھگ اسی طرح سوچنے لگا جیسے میں سوچتا تھا کیونکہ وہ خود کو پہاڑ سے زیادہ بڑا اور مضبوط محسوس کرنے لگا تھا ۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ تہوار کے دنوں میں شراب کی ایک بوتل اپنے سامنے لئے میز کے قریب بیٹھ جاتا تھا اور مجھے اور دوسروں کو نصیحتیں کیا کرتا تھا۔
’’خدا وندکے بچو‘‘ یہ اس کا بہت پسندیدہ تکیہ کلام تھا۔ کیو نکہ وہ ایک اچھا اور خدا کا خوف رکھنے والا شخص تھا ،’’ خداوند کے بچو‘‘ ، وہ کہتا تھا ،’’ تم اس طرح دھرتی سے نہیں لڑ سکتے ، وہ تم سے اپنے زخموں کا بدلہ لے گی اور کبھی تم سے ہار نہیں مانے گی ! تم دیکھ لو گے :ہم زمین کھودتے ہوئے سیدھے پہاڑ کے سینے تک پہنچ جائیں گے اور جب ہم اسے چھوئیں گے توہم شعلوں کے اندر پھینک دئے جائیں گے کیونکہ دھرتی کا دل آ گ ہے ، یہ توسب جانتے ہیں ! زمین کو جوتنا دوسری بات ہے ، فطرت کے دردِ پیدائش میں اس کی مدد کرنا انسان کا فرض ہے لیکن اس کے چہرے کویا اس کے جسم کو بگاڑنا ۔۔۔ اس کی ہم جرات نہیں کر سکتے ۔ دیکھتے نہیں ہو ہم پہاڑ کو جتنا جتنا کھودتے جاتے ہیں ہوا اتنی گرم ہوتی جاتی ہے اور ا س میں سانس لینا اتنا ہی اتنا کٹھن ہوتا جاتا ہے ۔۔۔،‘‘
وہ شخص اپنی مونچھوں کو انگلیوں سے مڑوڑ کردھیرے سے ہنسا۔
’’مگر وہ اکیلا آ دمی نہیں تھا جو اس طرح سوچتا تھا اور واقعی یہ سچ بھی تھا ۔ ہم لوگ جتنا جتنا آ گے بڑھتے جاتے تھے گرمی بڑھتی جاتی تھی اور زیادہ سے زیادہ لوگ بیمار پڑتے اور مرتے جاتے تھے ۔ جلتے چشمے روز بروز زیادہ طاقت ور دھاروں کی شکل میں ابلنے لگے تھے ، پہاڑ کے بڑے بڑے ٹکڑے الگ ہو کر گر رہے تھے ، اور ہمارے دو آ دمی جو لوگانو کے رہنے والے تھے پاگل ہو گئے ۔ رات کے وقت بارکوں میں بہت سے لوگ سر سام کی سی حالت میں اول فول بکتے تھے ، کراہتے تھے اور خوف اور دھشت سے دیوانے سے ہو کر اپنے پلنگوں سے اچھل اچھل پڑتے تھے۔۔۔
’’میں ٹھیک کہتا تھا ناں؟ ‘‘ میرے باپ نے کہا ۔ اس کی آ نکھوں میں خوف و ہراس بھرا ہوا تھا اور اس کی کھانسی برابر بڑھتی جا رہی تھی ۔۔ ۔ دیکھا میں ٹھیک کہتا تھا نہ ؟، اس نے کہا ، تم فطرت کو نہیں ہرا سکتے !،
’’اور آ خر کا ر وہ ایسا پڑا کہ اسے پھر کبھی اٹھنا ہی نصیب نہ ہوا۔ میرا باپ بڑا ہٹاکٹا ، مضبوط بوڑھا تھا اور تین ہفتے سے زیادہ وہ موت سے لڑائی لڑتا رہا ۔ ضد اور ثابت قدمی سے ، اور شکایت کا ایک لفظ زبان پر لائے بغیر ، ایک ایسے شخص کی طرح جو اپنی قدر و قیمت سے واقف ہے ۔
’’پاؤلو میرا کام پوارا ہو گیا‘‘۔ ایک رات اس نے مجھ سے کہا ’’اپنا خیال رکھو اور گھر چلے جاؤ، اور کنواری مریم تمہیں اپنے سائے میں لئے رہیں!‘‘۔پھر وہ بہت دیر تک خاموش رہا اور اپنی آنکھیں بند کئے لیٹا زور زور سے سانس لیتا رہا۔
وہ شخص اٹھ کر کھڑا ہوا،پہاڑوں کی سمت دیکھنے لگا اور پھر اتنے زور سے انگڑائی لی کہ اس کی ہڈیاں چٹخنے لگیں ۔
’’پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کرمجھے اپنے قریب کھینچ لیا اور کہا ۔ قسمیہ کہتا ہوں میرا خیال ہے کہ یہ کام پورا ضرور ہو گا : ہم اور وہ لوگ جو دوسری طرف سے کھدائی کر رہے ہیں پہاڑ کے اندر ملیں گے ، ہم ضرور ملیں گے۔ تمہیں اس کا یقین ہے نا، پاؤلو ؟ ۔ ہا ں مجھے اس کا یقین تھا۔ ، یہ بہت اچھی بات ہے ، میرے بیٹے !۔ آ دمی کو ہمیشہ اس چیز پر یقین رکھنا چاہیئے جو وہ کر رہا ہے، اسے اپنی کامیابی کی پوری امید ہونی چاہئے اور خدا پر ایمان رکھنا چاہئے جو کنواری مریم کی دعاؤ ں کی بدولت نیک کاموں میں ہمیشہ مدد کرتا ہے۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں ، بیٹے ، کہ اگرا یسا ہو، اگر لوگ اندر ایک دوسرے سے آ ملیں تو میری قبر پر آ نا اور کہنا : بابا، کام پورا ہو گیا ! تاکہ میں جان جاؤں !،
یہ بہت اچھی بات تھی ، دوست ، اور میں نے اس سے وعدہ کر لیا۔ وہ پانچ دن بعد مر گیا۔ اپنی موت کے دو دن پہلے اس نے مجھ سے اور دوسرے لوگوں سے کہا کہ اسے اس سرنگ کے اندر اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں اس نے کام کیا تھا ۔ اس نے ہم سے بہت منت سماجت سے ایسا نہ کرنے کو کہا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ ھذیانی کیفیت میں ایسا کہہ رہا ہو گا۔
’’ہم اور وہ لوگ جو دوسری طرف سے ہماری طرف بڑھ رہے تھے میرے باپ کی موت کے تیرہ ہفتے بعد پہاڑ کے اندر ایک دوسرے سے آ ملے ۔ اوہ دوست ،وہ بھی کیا دیوانگی کا دن تھا ، جب وہاں زمین کے اندر ، اندھیرے میں ہم نے اس دوسرے کے کام کی آ وازیں سنیں ، ان لوگوں کے کام کی آ وازیں جو زمین کے نیچے ہم سے ملنے کے لئے چلے آ رہے تھے، جو دھرتی کے اس بے اندازہ بوجھ کے نیچے چلے آ رہے تھے جو ہم چھوٹے چھوٹے انسانوں کو ایک ہی دفعہ میں کچل کر رکھ سکتا تھا!
’’کئی دن تک ہم وہ آ وازیں سنتے رہے ، وہ کھو کھلی کھو کھلی آ وازیں جو روز بروز زیادہ اونچی اور صاف ہوتی چلی گئیں ، اور فاتحوں کی دیوانہ وار مسرت نے ہم پر گویا قبضہ سا کر لیا اور ہم بالکل جنوں کی طرح ، خبیث روحوں کی طرح کام کرنے لگے۔ ہم ذرا سی بھی تھکن محسوس نہیں کرتے تھے ، ہمیں کسی قسم کے ابھارنے اور اکسانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اوہ، اس وقت کتنا اچھا معلوم ہوتا تھا ، بالکل ایک دھوپ والے دن میں ناچنے کی طرح ، ایمان سے کہتا ہوں ، دوست ! اور ہم سب بچوں کی طرح ملائم اور مہربان ہو گئے تھے ۔ اوہ کاش آ پ جانتے کہ زمین کے نیچے اندھیرے میں دوسرے لوگوں سے ملنے کی خواہش کتنی طاقت ور ، کتنی شدید اور کتنی پر جوش ہوتی ہے جبکہ آپ کئی طویل مہینوں سے چھچھوندر کی طرح زمین کے اندر ہی اندر کھود رہے ہوں !‘‘
ان دنوں کی یاد نے اس کے چہرے پر سرخی دوڑا دی ۔ وہ اپنے مخاطب کے قریب آ یا اور اپنی عمیق اور انسانیت سے لبریز نگاہوں سے اس کی آنکھوں کے اندر دیکھتے ہوئے ایک نرم اور مسرت بھری آواز میں اپنی بات جاری رکھی :
’’اور جب آخر کار مٹی کی آ خری تہہ بھی گر پڑی اور شمع کے سرخی مائل شعلے نے اس چوڑے سوراخ کو روشن کر دیا اور ہمیں ایک سیاہ چہرہ نظر آیا جس پر خوشی کے آ نسو بہہ رہے تھے اور اس کے پیچھے اور شمعیں اور دوسرے چہرے نظر آئے توفتح کے نعرے اور خوشی کی چیخوں کی کوئی انتہا نہیں رہی ۔ اوہ، وہ میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا دن تھا اور جب میں اس دن کویاد کرتا ہوں تومجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری زندگی بیکار نہیں گزری ہے ! وہ کام تھا، میرا کام ، مقدس کام ، میں بتا رہا ہوں آ پ کودوست ! اور جب ہم سورج کی روشنی میں نکلے تو ہم میں سے بہت سے لوگ زمین پر گر پڑے اور اسے چومنے اور رونے لگے ۔ اور یہ سب کچھ ایک پریوں کی کہانی کی طرح اچھا اور دلکش تھا، ہاں ، ہم نے مفتوح پہاڑ کو بوسے دئے ، دھرتی کو چوما اور اس دن میں نے اپنے آ پ کو دھرتی سے اتنا قریب محسوس کیا جتنا کبھی پہلے نہیں کیا تھا۔ اس دن مجھے اس طرح اس سے پریم ہوا جیسا کسی کو عورت سے ہوتاہے!
’’اور ظاہر ہے میں اپنے باپ کی قبر پر گیا ، میں جانتا ہوں کہ مردے کچھ نہیں سن سکتے لیکن پھر بھی میں وہاں گیا کیونکہ ہمیں ان لوگوں کی خواہشوں کی عزت کرنی چاہیے جنہوں نے ہمارے لئے محنت کی ہے اور جنہوں نے ہماری ہی جتنی تکلیفیں اٹھائی ہیں ۔ ٹھیک ہے نا؟
’’ہاں ، ہاں ، میں اس کی قبر پر گیا ، زمین پر پاؤں مارا اور جیسا اس نے مجھے بتایا تھا اُسی طرح میں نے کہا :
’’بابا، کام پورا ہو گیا‘‘، میں نے کہا ،’’ ہم نے فتح پالی ۔ کام ہو گیا ، بابا!‘‘ ۔