او میرے جذلان حاسن
کیا تمہیں معلوم ہے
تم بن ہے میری سانس ساکن
اور جہاں تم ہو وہاں پر دُھوم ہے۔۔۔۔۔۔
اس بات کی
جذبیہ حسّال!
کیا تم کو پتہ ہے
تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک لے گئی
اس سال
یہ اُس کی فتح ہے۔۔۔۔۔۔ مات کی
جذبیہ جذلان!
تم کو یاد ہے
ابو تمہارے ننھے منے جسم میں
ہر لمس سے موتی پروتے
بیج بوتے لفظ کے
تم بھی اس لمحے میں کھوتے، محو ہوتے
ابو کی پوروں میں سنتے
گیت ان کی نبض کے
اور تھاپ اُن۔۔۔۔۔۔ ہاتھ کی
اپنے بوسوں کی شکل میں اپنی نظمیں اور غزلیں
جب تمہیں ابو سناتے
ایک پل میں
تم بھی ان بوسوں کی حدت چھو کے
ہنستے، کھلکھلاتے
اس طرح سے داد دیتے
اس حسیں۔۔۔۔۔۔سوغات کی
ابو جب دل سے لگا کر
تم کو اپنافیض،ساری علمیت تر سیل کرتے
تم بھی اپنی بے زبانی کو جگا کر
موسیقی تشکیل کرتے
منتظر رہتی تمہاری دھڑکنیں
اُن فیض کے ۔۔۔۔۔۔ لمحات کی
یاد ہے، نا، میرے بچو
اپنے ابو کی وہ خواہش، آخری خواہش
وہ دنیا لفظوں سے بھرنے کی کوشش
اک مسلسل جنگ یعنی
جنگ بھی۔۔۔۔۔۔ دن رات کی
میں تمہاری تربیت کیسے کروں
کیا کیا بتاؤں
میں تمہارا کون ہوں کیسے جتاؤں
میں جیوں یا پھر مروں
تم کو خبر تک بھی نہ ہوگی
میرے بچو اس قدر معصوم ہو تم
دل پہ دستک بھی نہ ہوگی
ان حزیں۔۔۔۔۔۔ حالات کی
کیا وہ گھر ہے؟ اک کھنڈر ہے
جس جگہ پر ایک
حسبِ استطاعت جانور ہے
تم جہاں پر ہو وہاں پر
رات ہے ۔۔۔۔۔۔ جنگلات کی
ڈر رہا ہو ں
کیا کوئی بتلائے گا ابو کی خواہش
تم کو گونگوں، بہروں کی اس بھیڑ میں
مر رہا ہوں
میں تمہارے دور جانے سے ہوں پل پل
پیڑ میں
جیسے دو ٹکڑے کیے ہوں ریڑھ
میں۔۔۔۔۔۔ سقراط کی
میں تمہیں کیا دوں میرے بچو، سوا
اس نظم کے
یہ تمہاری برتھ ڈے کا گفٹ ہے، بالکل
منافی رسم کے
کوئی بھی اس گفٹ کی تم کو بھنک
لگنے نہ دے گا
میرے بچوں کی میرے گھر میں دھنک
لگنے نہ دے گا
میں نے جس کو خوں سینچا
سب اسے سمجھیں گے
بس اک نظم۔۔۔۔۔۔ اک خطاط کی