سنگت اکیڈمی کا پوہ و زانت پروگرام ہو یا بلوچیکے ادبی پروگرام ، براہوئی، پشتو، ہزارگی گو سب نے اپنی اپنی تیئیں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر پروگرامات سرزمین بلوچستان سے چند اہم ادبی دوست اپنے دوستوں کو غم فراق دے گئے تو کہیں اور نئے چہرے اس کشتی میں سوار ہوئے۔ اللہ کرے یہ کشتی ہر بڑے طوفان کو کراس کرتا ہوا اپنا مقام جاودان حاصل کرے جو اسکا حقیقی معنوں میں حق بنتا ہے۔
سنگت میگزین کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں لکھاریوں اور قارئین کے لئے ایک اہم مظہرتصور کیا جاتا ہے اس میگزین نے جہاں اپنی اہمیت برقرار رکھی تو وہیں دوسری جانب اس میں نووارد لکھاریوں کو بھی مایوس نہیں کیا گیا بلکہ انکے مضامین، قصے اور شاعری چھپتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ میگزین بلوچستان والوں کے لئے ایک انمول تحفہ ہے جو اپنے قارئین کو اگلے شمارے کے لئے انتظار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سلسلہ ’’سورج کا شہر گوادر‘‘ ہر ماہ اس میگزین کا حصہ بن کر اس میگزین کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ سنگت اکیڈمی کی جانب سے کتابوں کا اجراء اور تراجم سیریز کے تحت نئی کتابوں کی آمد بھی اپنے ساتھ بہار لائی اور دل و دماغ کو چھوتی ہوئی تحریر زہنوں کو معطر کرنے کے سبب بن گئے۔ پوہ و زانت پروگرام بھی مثالی رہے۔ پوہ و زانت پروگراموں نے ہلچل کی دنیا سے ادیبوں اور لکھاریوں کو نکال کر ہفتہ نہ سہی مہینے میں ایک دن اپنی اہمیت کا احساس ضرور دلایا اور ادب کے بکھر ے چہروں کو ایک مقام پر جمع کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی چھٹی سنگت کانفرنس بھی ایک منفرد حیثیت کا حامل پروگرام تھا جس نے قریب و دور کے دوستوں کو اکھٹا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جہاں شاعری، مقالے پڑھے گئے اور سنگت کے پروگرموں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ سنگت کے ساتھیوں کا ہر اتوار کو واجہ عبداللہ جان جمالدینی کے گھر ڈیرے ڈالنا اور اُسے سنڈے پارٹی کا نام دینا بھی اپنے اندر ایک مخصوص حیثیت رکھتا ہے۔ سنگت اکیڈمی کا نیا سلسلہ ’’سنگت تراجم سیریز‘‘ بھی منفرد حیثیت کا حامل ہے جنکی اب تک 9کتابیں شائع کی جا چکی ہیں۔
سنگت اکیڈمی کی جانب سے 2015میں کل آٹھ نشستیں ہوئیں۔ مئی میں مرکزی سالانہ تقریب کا انعقاد ہوا۔ بلوچی اکیڈمی میں ہونے والی اس تقریب میں شرکا کی بھرپور دلچسپی رہی۔ پہلے حصے میں مضامین پیش ہوئے۔ وحید زہیر نے یکم مئی کی مناسبت سے ’محنت کی تہذیب‘ کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔شاہ محمد مری نے ’بلوچی میں تراجم کی اہمیت‘ پر مضمون سنایا۔عطااللہ بزنجو اور کامریڈ فقیر نے ساحر کا کلام سنایا۔ دوسرے حصے میں وفات پانے والے چند ہم فکر احباب کو یاد کیا گیا۔ سلطان نعیم قیصرانڑیں پر ساجد بزدار اور جیئند خان نے الگ الگ مضامین پڑھے۔ عبدالصمد امیری پہ رحیم مہر کا مضمون پیش ہوا۔ تیسرا حصہ مشاعرے کا تھا۔ اس خصوصی مشاعرے میں بلوچی شاعری قاضی عبدالحمید شیرزاد نے، براہوی ڈاکٹر منیر رائیسانڑیں نے، پشتو کلا خان نے جب کہ اردو کلام بیرم غوری نے سنایا۔ اس دوران حاضرین کو فوک میوزک سے بھی محظوظ کروایا گیا۔ عزیز مینگل کی پینٹنگز بھی توجہ کا مرکز رہیں۔ آخر میں آٹھ اہم قراردادیں بھی منظور ہوئیں۔اسی سال کے آخر میں سنگت کا نیا کابینہ تشکیل پایا۔ جسکی سربراہی کا تاج عابد میر کے سر سجا۔اوہ میں تو بھول ہی گیا’’ مستیں توکلی نامی کتا ب ‘‘بھی تو کسی شاہکار سے کم نہیں تھا جسکی شاہکاری کے قصے آگے چل کر نمایاں ضرور ہوں گے۔
عابد میر کا مہردر پبلیکشن بھی کتابوں کی اشاعت میں 2016کو اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھ پایا اس ادارے کی جانب سے بھی چارکتابیں شائع کی گئیں۔جنوری میں گوادر اور تربت میں کتاب میلہ ہوا۔مئی اور نومبر میں کوئٹہ ، بلوچی اکیڈمی میں کتاب میلہ ہوا۔جون میں بلوچستان یونیورسٹی میں اسٹال لگایا۔جس نے منتظر آنکھوں کی اس حسرت کو پورا کرنے میں اپنا کردار بھی بخوبی نبھایا۔
بلوچی اکیڈمی کی جانب سے گزشتہ سال 2015میں بہت سے اہم پروگرامات بھی منعقد کئے گئے، اور کتابیں بھی شائع کی گئیں۔شعری و ادبی ویوان اور کتابوں کے سٹال بھی اسکا حصہ رہے۔ادارے کی جانب سے 22پروگرامات منعقد کئے گئے جن میں میر گل خان نصیر سمینار جس میں کلیات نصیر کی تقریب رونمائی، مزار ابراہیم، میرعمر، سبزل سامگی،نور محمد نورل کی کلاسیکل موسیقی سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے پروگرام رکھا گیا، گوادر میں کتب میلے کا حصہ بنے ۔ مادری زبان کے عالمی دن کے مناسبت سے ایک روزہ پروگرام، غنی نقش، پیرل شے تگری کی یاد میں، دیگر شعری و ادبی دیوانوں سے استفادے کا موقع فراہم کیا گیا۔ یقیناًایسے پروگرامات سے ذہنی تخلیق اور ایک دوسرے کے ساتھ متعارف ہونے کا نادر موقع دستیاب آسکا۔ بلوچی اکیڈمی کتابوں کی اشاعت میں بھی پیچھے نہیں رہا نئے چہرے سامنے آگئے پرانے چہروں نے تو جوہر دکھلائے۔ واجہ جان محمد دشتی کا 100سے زائد گیدی قصوں پر مشتمل ایک نایاب تخلیق ’’ بادشاہ حدا وند وت ات‘‘ و بلوچی زبان کی سب سے بڑی ڈکشنری ’’لفظ بلد‘‘ کاکارنامہ بھی انہی کے حصے میں آگئی۔بلوچی اکیڈمی نے 38کتابیں شائع کیں جس میں پہلی مرتبہ فلسفے پر کام کیا گیا۔ جو یقیناًعلم و ادب کے شعبے کے لئے ایک گرانقدر خدمت کے طور پر لیا جا سکتا ہے، نوجوان لکھاری و ریسرچر مجاھد بلوچ کی کتاب ’’ دردانی سفر گران انت‘‘ ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ اور اسی سے مصنف کے اندر ایک توانائی نے جنم لیا ہے اور تحقیق کرتے ہیں لکھتے ہیں۔ اور بھی نوجوان جن میں عبداللہ دشتی کا کتاب ’’ بلوچ ربیدگی راہبند‘‘، امین ضامن کا قصہ ہوشام، مجاھد بلوچ کا سانس و بنیادم، علی گوہر کا مرگ قصہ، شرف شاد کا پیش گپتگیں مرگ وبد دپتر اور دیگر قلمکاروں کی علمی خزانے بہت جلد ہمارے درمیان موجود ہوں گے۔ اسحاق خاموش نے خاموشی توڑتے ہوئے ایک خزانہ ’’ بلوچی زبان و سیاہگ‘‘ لکھ ڈالی۔ ڈاکٹر فضل خالق کا ہفت تلار، سنگت رفیق کا اوپار، ایم ایچ خلیل کا مہر ء بہار، شد ء ہار اور بہت سی کتابیں شاید جنکا ذکر اس مضمون میں کرنا ممکن نہیں۔ پروگرامات اور کتابیں ادبی بہاروں کو لوٹانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اداروں کی جانب سے رکھے گئے ان پروگراموں میں بہت سے بچھڑے دوستوں کو یاد کیا گیاتو دوسری جانب زندہ دوستوں کو بھی انکی حیات میں پروگراموں کا حصہ بنا لیا گیا۔بچھڑنے والوں میں ایک نام جو ہر ایک کی زبان پر چھایا رہا وہ تھا دانیال طریر۔ جبکہ سال 2016کا اوائل بھی کچھ خاص پیغام نہ دے گیا ادیب افضل مراد کی اہلیہ اور رائٹر امرت مراد ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی ۔
بیگ محمد بیگل اور ظفر علی ظفر کی موجودگی میں محفل کو چراغاں کیا گیا۔ اسی پروگرام میں ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی صاحب کا کتاب Baloch in Search of Identityبھی پیش کیا گیا۔
بلوچستان کے اخبارات روزنامہ جنگ، مشرق اور آزادی کوئٹہ کے ادبی صفحات بھی ادبی پروگراموں اور کتابوں کی تشہیر، شعر و شاعری کے سلسلے و کہانیاں اپنے صفحات کی زینت بناتے رہے۔روزنامہ آزادی کوئٹہ کا ادبی صفحہ بھی ادب سے مہکتا ہوا محسوس ہوا۔روزنامہ جنگ میں بلوچی کی داستانیں ڈاکٹر علی دوست کا بلوچی دیوان،عبدالقیوم بیدار کا براہوئی احوال،عمر گل عسکر کاپشتو محفل، فاروق سرور کا ادب سیر جس میں مختلف کتابوں کے ساتھ ساتھ دیگر پروگراموں پر تبصرے بھی شامل ہوتے رہے اور ادب کا شعبہ بہت کچھ سمیٹتا گیا اور حاصل کرتا گیا۔اسکے علاوہ ان صفحات کی تذوین و ترتیب بیرم غوری، مقبول رانا اور محمود ابڑو جس محنت سے کرتے ہیں وہ یقیناًداد دیئے بنا نہیں رہ سکتے۔
ادب کے شعبے میں اگر وش نیوز چینل کا نام نہ لوں تو ناانصافی ہوگی۔ وش نیوز بلوچی زبان کی دیمروی کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہا ہے۔ اس نے زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہم بلوچوں کی نفسیات ہے کہ اگر ہم دوسرے بلوچ کی کردار کشی نہ کریں تو ہمیں چین نہیں ملتی ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وش کی کاوشیں کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کی جا سکیں گی کہ جس کے مالک اقبال بلوچ نے بلوچی زبان کی خدمت میں اپنا کردار بڑی حد تک نبھانے کی کوشش کی ہے اور حالیہ چند دنوں میں ایک نیا سلسلہ جو کہ بلوچی زبان کے شاعر اور زانتکاروں کی خدمات کے پیش نظر شروع کیا ہے جس میں ایک پروگرام مبارک قاضی اور دوسرا پروگرام اکبر بارکزئی کے لئے رکھا تھا۔ یہ پروگرام ناظرین کی جانب سے داد وصول کئے بنا نہیں رہ سکے اور ان پروگراموں کو بڑی حد تک پزیرائی حاصل ہو چکی ہے۔ گو کہ یہ پروگرام کراچی کی سطح پر ریکارڈ کئے جا چکے ہیں لیکن انکی بازگشت بلوچستان کی دشت و صحرا میں سنائی دیئے۔
سید ہاشمی ریفرنس لائبریری ، بلوچی اکیڈمی تربت، براہوئی، فارسی، پشتو، ہزارگی ، لبزانکی گل، دیوان بلوچستان میں اپنی خوشبوئیں بکھیرتے رہے۔ادب وہ شعبہ ہے جہاں عمر کی کوئی قید و بند نہیں اور نہ ہی تعلیم کا معیار اس پر منحصر ہوتی ہے بس یہاں بھی اب کا شعبہ نوجون، بڑے و بوڑھوں میں یکساں حیثیت رکھتا ہے۔ زبان و ادب دوستوں نے اس میدان کو کبھی خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ اس میدان میں اپنے جوہر دکھاتے رہے۔ بلوچستان میں ادب کا معیار بہت اونچا ہے۔ ادیب و دانشور اور اداروں نے اسکی عمارت کو مضبوطی فراہم کرنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ اجتماعی حوالے سے ہو یا انفرادی حوالے سے ہر جگہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں کام ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ اس سال یہ شعبہ مزید کھلکھلائے گا پھلے پھولے گا اور بہاریں بکھرتا رہے گا۔بلوچستانی ادب نامور شخصیات سے بھری پڑی ہے جنکی علمی و ادبی خدمات بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔انکی گرانقدر خدمات بھی بلوچستان میں بہاروں کے پھولوں کو بکھیرنے اور اس سرزمین کو معطر کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔