کیسا دکھ یہ لیکھ رہی ہوں
شاید آنکھیں سیک رہی ہوں
سپنا کوئی دیکھ رہی ہوں
سپنا کوئی نوچ رہی ہوں کیا ہے
جو میں سوچ رہی ہوں
کس کو آخر کھوج رہی ہوں
کھوج رہی ہوں وہی زمانہ
سات سروں کا ایک گھرانہ
جوتھا گوہر کا کا شانہ
دو بھائی تھے بہنوں جیسے
ہم تینوں کے گہنوں جیسے
اور ہم سب تھے بہنوں جیسے
چار وہاں پر میرے سکھی تھے
پانچ کی طاقت ہم مٹھی تھے
سب خوشحال تھے سبھی سکھی تھے
چھ کی چھت تھی جیسے چھایا
سات کا ساتھ تھا جیسے سایہ
آنکھ کھلی تو میں نے پایا
سات پلوں کا جپنا سا تھا
ساتھ میں کوئی اپنا سا تھا
سندر کوئی سپنا سا تھا
پانچ برس پہلے جب مجھ سے
سات کا سایہ روٹھ گیا تھا
ساتھ کہیں پرچھوٹ گیا تھا
تب میں نے یہ کب سوچا تھا
پانچ برس میں کھو جائیں گے
پانچ ہی آخر ہوجائیں گے
یاد مجھے بس یہی رہا ہے
سب کچھ کرتا ایک خدا ہے
سات سے پانچ کا فرق جدا ہے
سانس اکھڑنے لگتی ہے کب؟
سات سے پانچ کو چلتی ہے جب
مجھ کو ’’ گنتی‘‘ کھلتی ہے تب